پاکستان میں جس چیز کی شدت سے کمی ہے، وہ قانون کی حکمرانی ہے۔ ہر جرم کے لئے پاکستان میں قانون موجود ہے لیکن قانون صرف اور صرف عام آدمی کے لئے حرکت میں آتا ہے۔ ایسا امیر آدمی جس کے پاس مہنگے وکلاء کیلئے وافر رقم موجود ہو اس کے لئے قانونی موشگافیوں کے لئے ہزار راستے نکل آتے ہیں اور قانون بے بس نظر آتا ہے اور اگر کسی قانون شکن کے پاس لوگوں کو جمع کرنے کی صلاحیت ہو تو پاکستان کا قانون اس کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے۔
وہ ڈاکٹر ہوں، دیگر پیشہ وروں کی تنظیمیں ہوں، طلبا ہوں یا سیاسی جماعتیں، ان کیلئے قانون کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایسے جتھوں کو ہم نے ہسپتال پر حملہ کرتے دیکھا۔ سڑکیں بند کرتے دیکھا اور حتیٰ کہ اعلیٰ عدالتوں کو نشانہ بناتے ہوئے بھی دیکھا۔ کسی کی کیا مجال کہ وہ ایسے لوگوں کو نشان عبرت بنا سکے۔ آخر کار مذاکرات پر ہی تان ٹوٹتی ہے اور کچھ لے اور کچھ دے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بقائے باہمی کا راستہ نکالا جاتا ہے۔
اس وقت خطے کی جو صورت حال ہے، وہ پاکستان کے لئے خطرناک نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ پاکستان کا امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے انکار، پاکستان کے لئے بہت سی مشکلات لے کر آیا ہے، پاکستان کے عوام اس فیصلے کی داد تو دے سکتے ہیں لیکن اس کے لئے اپنے عیش و آرام قربان کرنے کیلئے قطعی تیار نہیں۔ پاکستان کے دشمن پاکستان کے لئے اقتصادی مشکلات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کر رہے ہیں، ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور فیٹف سب کی ڈوریاں امریکہ سے ہلائی جاتی ہیں۔
ڈالر بے قابو ہے اور روپے کی بے قدری تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اب سعودی عرب نے 4.2ارب ڈالر کا پیکج دیا ہے تو معیشت کی سانس میں سانس آئی ہے لیکن سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملکی سطح پر یہ کوئی خاص بڑی رقم نہیں ہے اور چند ماہ بعد ہم پھر اسی حالت میں آ جائیں گے اور کشکول اٹھائے ایک نئے قرض کی تلاش میں ہوں گے۔ حکومت اب تک 10ارب ڈالر کا قرضہ واپس کر چکی ہے اور 16ارب ڈالر کا قرضہ اس سال واپس کرنا ہے، قرض کی مے پینے والے خوشحال اور شاداب ہیں اور اپنی بیرون ملک جائیدادوں کی قیمت بڑھ جانے سے خوش ہیں۔
جلد یا بدیر ہمیں اپنے اقتصادی مسائل کا دیرپا حل ڈھونڈنا ہو گا۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے زرخیز زمین اور معدنی ذخائر سے نوازا ہے۔ ہماری نسل کے لوگوں کو یاد ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان ایک ترقی کرتا ہوا ملک تھا، پن بجلی کے منصوبے لگائے جا رہے تھے اور پاکستان میں اپنی ضرورت کے مطابق وافر بجلی مناسب ریٹ پر دستیاب تھی۔ پاکستان کی صنعت روز افزوں ترقی کر رہی تھی اور کوریا جیسے ممالک بھی پاکستان کے منصوبوں کو رشک کی نظر سے دیکھتے تھے اور ہماری پیروی کرنے کے خواہاں تھے۔ ہمارے زرعی سائنسدان نت نئی فصلوں کے فارمولے دریافت کر رہے تھے اور فی ایکڑ پیداوار دن بدن ترقی کر رہی تھی۔
قرضے لینے کی روایت ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی اور ایک بار پاکستان نے جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک کو بھی قرضہ دیا تھا، پھر نجانے پاکستان کو کس کی نظر لگی کہ پاکستان کی زراعت اور صنعت دونوں ابتری کا شکار ہو گئیں۔ مشرقی پاکستان جسے ہم اپنی آبادی میں اضافے کاموجب قرار دیتے تھے اور سمندری سائیکونز کو اپنی خراب اقتصادی حالت کا بہانہ بناتے تھے، ہم سے علیحدہ ہونے کے بعد اپنی آبادی کو قابو میں لا چکا ہے۔ آج بنگلہ دیش کی کرنسی (ٹکہ) ہمارے روپے کا منہ چڑا رہی ہے۔ پاکستان کے غریب عوام مہنگائی میں پسے ہوئے ہیں اور ہر پندرہ دن کے بعد پٹرول اور بجلی کے نرخ بڑھنے کی نوید سنتے ہیں اور ان کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے۔
ہمیں اپنی طویل المدت پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، قرضے کی اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کر کے ہمیں اپنی زراعت اور صنعت کو نئے خطوط پر استوار کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی فی ایکڑ پیداوار بڑھانی ہو گی اور صنعت کاروں کے لئے آسانی پیدا کرنی ہوں گی۔ حکومت جو بھی دعوے کرے لیکن عملی طور پر پاکستان میں کاروبار کرنا یا صنعت لگانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ دانستہ طور پر ایسے قوانین اور پروسیجر بنا دیے گئے ہیں کہ ہر کاروباری آدمی کو کم و بیش پانچ چھ سرکاری محکموں کے اہلکاروں کی جیب گرم کرنی پڑتی ہے، ورنہ کاروبار بند کرنا پڑتا ہے۔ ان قوانین کو بدلنے اور پروسیجرز کو آسان بنانے پر کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن ان پروسیجر سے فائدہ اٹھانے والے مافیا کبھی یہ اجازت نہیں دیتے کہ کوئی حکومت عوام کیلئے آسانیاں پیدا کر سکے۔ جعلی ادویات، جعلی کھاد اور زرعی ادویات کی موجودگی میں فی ایکڑ پیداوار کیسے بڑھ سکتی ہے۔ ان مافیا کا قلع قمع کرنے میں کیا رکاوٹ ہے۔
اگر ٹی وی پروگرام کرنے والے چند اینکر ان جعل سازوں کا پتہ چلا سکتے ہیں تو حکومت کیوں اس قدر بے بس ہے۔ صرف مصمم ارادے کی کمی ہے۔ ہر حکومت کی سیاسی مجبوریاں اسے ایسا کرنے نہیں دیتیں۔ پاکستانی عوام کی موجودہ حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں کہ عمران خان نہ صنعت کار ہیں اور نہ زمیندار تو شاید مافیا ان کا راستہ نہ روک سکیں۔ لیکن اب پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں مافیا بہت طاقتور ہیں، عمران خان بھی ان کے گھیرے میں ہیں۔ ان کے مشیر انہیں عام آدمی سے دور رکھتے ہیں۔ کبھی انہیں احتساب کی سرخ بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں اور کبھی انہیں ہمیشہ مدد کرنے والی فوج کے خلاف ابھارتے ہیں اور انہیں اپنی Egoکے چکر میں ڈال دیتے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ تین سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود عمران خان عام لوگوں کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لا سکے، جب تک ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہو گی، ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔
عوام بھی بڑے جذباتی واقع ہوئے ہیں اور ہمارے دشمن ہماری اس کمزوری کو خوب سمجھتے ہیں۔ ہمیں مشتعل کرنے کیلئے ان کا پاکستان آنا ضروری نہیں ہے۔ وہ ہمارے ملک سے ہزاروں میل دور ہمارے عقائد سے متصادم کوئی واقعہ سٹیج کرتے ہیں اور ہم لاٹھیاں لے کر اپنے ملک کی توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں۔ دیگر اسلامی ریاستیں بھی اس دنیا میں موجود ہیں لیکن کیا مجال ہے کہ کسی دوسری ریاست میں ایسی توڑ پھوڑ کی اجازت دی جاتی ہو۔ ہماری حکومت بھی ماشاء اللہ ایسی دانشمند ہے کہ مسئلہ جب تک خطرناک صورتحال اختیار نہ کر لے اس کی طرف سے آنکھیں بند رکھتی ہے۔ ٹال مٹول اور جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے، وقت گزاری کے لئے جھوٹے وعدے کئے جاتے ہیں اور ناقابل عمل معاہدے کر لئے جاتے ہیں۔ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو پھر حکومت بیدار ہوتی ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور مسلمہ اصول یہی ہے کہ جب عوام ایک حکومت کا انتخاب کر لیں تو ملک کی فیصلہ سازی کا اختیار منتخب حکومت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کسی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ حکومت پر حکم چلائے اور اپنی مرضی کے فیصلے حکومت پر مسلط کرے۔ اپوزیشن کا بھی فرض منصبی ہے کہ وہ اس اصول کی پاسداری کرے اور حکومت کا ساتھ دے۔ مگر یہاں یہ حالت ہے کہ پی ڈی ایم کے غیر منتخب شدہ سربراہ فرما رہے ہیں کہ اسلام آباد کیا کسی کے باپ کی جاگیر ہے کہ کالعدم جماعت کے لوگ اسلام آباد میں مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ لیکن قانون ان کے سامنے بھی بے بس ہے کیونکہ وہ خود ایک جتھے کے سربراہ ہیں۔ جب تک ملک میں قانون کی عملداری نہیں ہوگی، جتھے اپنے فیصلے حکومت پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔