اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم کا اتحاد ایک غیر فطری اتحاد تھا۔ اصل اتحاد تو تین چار جماعتوں کا تھا لیکن اسے کھینچ تان کے نو جماعتوں کا اتحاد بنا دیا گیا۔ باقی جماعتیں تو شامل باجہ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ عمران خان کی خوش قسمتی کہ یہ اتحاد توقع سے بھی پہلے اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اس اتحاد کے افسوسناک انجام کا سب سے زیادہ نقصان مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کو پہنچا اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ بلاول بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کو پہنچا۔ آصف علی زرداری کی راہنمائی میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں بھی اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے اور یوسف گیلانی کو سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بنا کر اپنی سیاسی حیثیت منوائی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے خود غرضی دکھائی ہو لیکن پاکستان سے محبت کرنے والے غیر سیاسی پاکستانی عوام بھی پیپلز پارٹی کے اقدامات کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جس اتحاد کا مقصد ہی پاکستان میں افراتفری اور انارکی پھیلانا ہو، محب وطن پاکستانی کیسے اس کے ساتھ چل سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی کہ اس اتحاد کی سربراہی کی وجہ سے وہ ساری رکن جماعتوں کو احکامات دے سکیں گے اور ان کے الٹے سیدھے فیصلے من و عن تسلیم کئے جائیں گے۔ مریم نواز بھی اسی مقصد کے لئے مولانا کی تابعداری کر رہی تھیں کہ ان کی دیکھا دیکھی باقی جماعتیں بھی بے چون و چرا تعمیل کریں گی۔ مولانا اور مریم نواز کے مقاصد میں حیران کن حد تک مماثلث تھی۔ دونوں کا مقصد ملک میں حالات کو اتنا خراب کرنا تھا کہ کسی بھی طاقت کے لئے انہیں سمبھالنا مشکل ہو جائے۔ بعض بیرونی طاقتوں کا ایجنڈا بھی یہی تھا۔ ان حالات میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو کا پاکستان اور پیپلز پارٹی کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرنا سودمند ثابت ہوا۔ آصف زرداری نے اپنے ذاتی کردار سے قطع نظر بالغ نظری کا ثبوت دیا اور اپنی "پاکستان کھپے"کی پرانی پالیسی کی یاد تازہ کر دی۔ ن لیگ کے کور نظر اور کوتاہ قد لیڈر تو پاکستان نہ کھپے کی حدوں کو بھی چھو آئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے نہ صرف ریاست پاکستان کو مضبوط کیا ہے بلکہ بلاول بھٹو ذاتی طور پر ایک بالغ نظر نوجوان لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ن لیگ کے بعض شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار لیڈروں کے رقیق حملوں اور طنزیہ جملوں کا جواب بھی نہایت متانت اور شائستگی سے دیا ہے اور ن لیگ کو بھی ٹھنڈا پانی پینے اور لمبے لمبے سانس لینے کا مشورہ دیا ہے۔ پہلی دفعہ یہ محسوس ہوا ہے کہ بلاول نے اپنے والد گرامی سے کچھ نہ کچھ سیاست سیکھ لی ہے اور وہ مریم نواز کی طرح جوش میں ہوش کا دامن چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے۔ آج تک جس لیڈر نے بھی پاکستان کو توڑنے یا برباد کرنے کی سازش کی ہے، وہ قدرت کے انتقام سے بچ نہیں سکا اور دنیا کے لئے نشان عبرت بنا ہے۔ آج کے حکمرانوں کو بھی یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نہ امریکہ کا محتاج ہے نہ روس کا۔ اگر خدا پہ بھروسہ کر کے پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی جدوجہد کی جائے تو اس ملک میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اقوام عالم میں ایک باعزت مقام حاصل کرسکے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اچھا کیا کہ قوم کے ساتھ ٹیلیفونک رابطے میں یہ واضح کیا کہ پاکستان سٹیٹ بنک آرڈی ننس کے پیچھے آئی ایم ایف کا پریشر کارفرما ہے ورنہ ان کے دیگر ترجمان تو آئیں بائیں شائیں کی پالیسی اپنائے ہوئے تھے۔ وزیر اعظم یہ بھی یاد رکھیں کہ اس قوم نے یہ پریشر برداشت کرنے کے لئے ہی انہیں وزیر اعظم منتخب کیا ہے۔ اب یہ ان کا فرض اولین ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کریں۔ وزیر اعظم کے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ وہ اپنے دوست اور دشمن کو پہچاننے میں غلطی نہ کریں۔ دیار غیر سے حکمرانی کا مزہ لینے کے لئے آئے ہوئے اپنے مشیروں اور ترجمانوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ کی حکومت ختم ہوتے ہی یہ اپنا بریف کیس اٹھائیں گے اور اپنے اصل وطن کی طرف کوچ کر جائیں گے۔ ان کا مقصد آپ کو امریکہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے مرعوب کرنا اور ان کی مرضی کے فیصلے کروانا ہے۔ کسی اور سے آپ کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ان اداروں اور ان ممالک کے بارے میں اپنے ماضی کے بیانات آپ وقتاً فوقتاً سنتے رہیں تو آپ کو اس دبائو سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ ایاک نعبدو ایاک نستعین کہتے کہتے اللہ تعالیٰ نے آپ کے حوالے ملک کی باگ ڈور کر دی۔ ایسے ہی اسی خدائے بزرگ و برتر پر بھروسہ رکھیں اور غیر اللہ کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو فتح سے ہمکنار کر دے گا۔
فی الوقت تو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وطن عزیز بغیر کسی حکومت کے چل رہا ہے۔ حکمت کا تقاضا تو یہ ہے کہ وزیر اعظم آزاد ذرائع سے حقائق جاننے کی کوشش کریں۔ وزیر اعظم نے خود اپنے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان کاروباری لوگوں میں جہانگیر ترین، بہتر کاروباری آدمی اور بہترین منتظم ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ خنجر کی نوک پر ہے اور باقی لٹیرے آزاد گھوم رہے ہیں۔ سنگ و خشت مقید ہیں اور سنگ آزاد۔ پنجاب کے مشیر زراعت جناب عبدالحئی دستی نے جس جرات اور فراست کے ساتھ حکومت وقت کو آئینہ دکھایا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ وزیر اعظم ایسے لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنانے کی بجائے ان سے اصل حقائق جاننے کی کوشش کریں اور پھر آزادانہ فیصلے کریں۔ ملک میں سب اچھا ہے، کی گردان دہرانے والے ترجمان نہ ملک کے دوست ہیں نہ وزیر اعظم کے۔ سب اچھا نہیں ہے۔ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی اشیائے خورنی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے۔ خدا کرے کہ یہ اضافہ اونٹ کی کمرپر آخری تنکہ ثابت نہ ہو۔ اب تو وزیر اعظم کو یہ سمجھ آ جانی چاہیے کہ وہ مرکز میں بیٹھ کر صوبائی حکومتیں نہیں چلا سکتے۔ خدا کے لئے صوبوں کواپنا کام کرنے دیں اور فعال وزیر اعلیٰ لائیں۔ وزیر اعظم کی اب تک کی کارکردگی کے پیش نظر تو وہ مرکز کی حکومت ہی سنبھال لیں تو بڑی بات ہو گی۔ چہ جائیکہ وہ چاہیں کہ ریموٹ کنٹرول سے وہ صوبے کنٹرول کریں۔ بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور وقت بہت کم ہے۔ وزیر اعظم چھوٹی سیاست سے اوپر اٹھیں اور بڑے فیصلے کریں۔