الحمدللہ کہ وزیراعظم عمران خان صحت یاب ہوئے اور اپنی حکومتی مصروفیات شروع کر چکے ہیں لیکن کنفیوژن ہے کہ کسی طرح اس حکومت کا پیچھا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ آئسولیشن کے دوران وزیراعظم کو غور و غوض کرنے کا نادر موقع ملا ہے اور وہ صحت یاب ہوتے ہی بڑے دوررس فیصلے صادر کریں گے۔ ندیم بابر کی رخصتی کے فیصلے کو بھی بہت ہوا دی گئی اور خوشیاں منائی گئیں کہ ایسا مافیاز کی شامت آنے والی ہے۔
پٹرولیم کے بحران کا قصہ وسط 2020ء کا ہے۔ یعنی تقریباً ایک سال کے بعد وزیراعظم کو سمجھ آ سکی کہ بحران کا منبع کہاں تھا۔ اب انکوائری ہو گی اور مزید تفتیش کی جائے گی۔ عام لوگوں کا خیال تھا کہ ندیم بابر کے بعد اس اہم وزارت کی باگ ڈور کسی نہایت معتمد اور مستعد شخص کے حوالے کی جائے گی کہ ایسا بحران دوبارہ جنم نہ لے سکے لیکن جناب تابش گوہر کو اس وزارت کی اضافی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ ان کے ذاتی مفادات بھی اسی طرح کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور ان کی KSE اور ابراج گروپ میں کام کرنے کی شہرت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ کیا وزیراعظم کسی منتخب شخص کو یہ وزارت نہیں سونپ سکتے اور کیا ایسے ذاتی دوستوں پر ہی انحصار ضروری ہے۔
سزا اور جزا کا عمل جب تک پوری طرح بروئے کار نہیں آئے گا ہمارے معاشرے کا سدھرنا نہایت مشکل ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کی پچھلے تقریباً تین سال کی کارکردگی گواہ ہے کہ کسی بھی بڑے مجرم کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں ہو سکی۔ نہ کسی قومی لٹیرے کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا اور نہ کوئی افسر سزا کا حقدار ٹھہرا۔ اگر فیصلہ سازی کی موجودہ رفتار برقرار رہی تو وہ چند افسر جو معتوب ٹھہرے ہیں، اگلی حکومت میں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہوں گے، پچھلی تنخواہیں بھی لیں گے اور پوری آب و تاب کے ساتھ پرانی حکومتوں کے ساتھ اپنی وفاداری کا صلہ وصول کریں گے جو ریٹائر ہوں گے انہیں سینیٹر بنا دیا جائے گا۔
سابق وزیر خزانہ جب سینٹ کے الیکشن میں ناکام ہوئے تو انہوں نے نیم دلی کے ساتھ اپنا استعفیٰ پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کا استعفیٰ قبول کر لیا جاتا لیکن عمران خان نے انہیں کام جاری رکھنے کی درخواست کی۔ عوام کے منفی ردعمل کے باوجود عمران خان نے اپنی ضد پر اڑے رہنے کو ترجیح دی۔ اب خرا بیٔ بسیار کے بعد وزارت خزانہ کا قلمدان حماد اظہر کو ایک اضافی ذمہ داری کے طور پر دیا گیا ہے۔
کیا کوئی شخص وزارت خزانہ جیسی اہم ذمہ داری کو پارٹ ٹائم کام کے طور پر احسن طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ حماد اظہر نے پہلے ہفتے میں ہی یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اس ذمہ دار کے اہل نہیں۔ اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ہی انہوں نے بھارت کے ساتھ کاروبار کھولنے کا اعلان فرما دیا۔ چینی، کپاس اور اوردھاگہ بھارت سے امپورٹ کرنے کا اعلان کر دیا اور اسے پاکستان کے مفاد میں ثابت کرنے کے لیے دلائل کا انبار لگا دیا۔ اس اعلان کے لیے نہ وزارت خزانہ سے مشورہ کیا گیا، نہ کشمیر کمیٹی کو درخواعتنا سمجھا گیا۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ شدید عوامی ردعمل آیا اور کابینہ کو اس فیصلے کو رد کرنا پڑا۔
وفاقی کابینہ نے دو ٹوک فیصلہ دیا کہ کشمیر کی قیمت پر بھارت سے تجارت نامنظور ہے۔ کیا جز وقتی وزیر خزانہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے اہم ترین فیصلے تن تنہا کر سکتے ہیں یا وہ کسی پریشر کا شکار تھے۔ عوامی ردعمل کا اندازہ تو وہ بالکل نہیں لگا سکے۔ کیا عمران خان نے ان کی صلاحیت کا اندازہ لگانے میں غلطی کی ہے یا حماد اظہر نے وزیراعظم کی ایما پر ہی یہ اعلان کیا تھا۔ اپوزیشن تو اس فیصلے پر عمران خان کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن ہر دو صورت میں جزوقتی وزیر خزانہ کا استعفیٰ تو بنتا ہے یا پھر اس شک کو تقویت ملے گی کہ اصل فیصلہ عمران خان کا تھا اور حماد اظہر صرف scape goat ہیں۔
براڈ شیٹ کمیشن کی رپورٹ بھی جاری ہو چکی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے اپنی سابقہ شہرت کے مطابق نہایت قلیل مدت میں ایک دبنگ رپورٹ پیش کی ہے اور کئی راز طشت ازبام کئے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ حکومت کو باور کرایا گیا ہے کہ نیب کے علاوہ کسی سرکاری ادارے نے تعاون نہیں کیا اور بیوروکریسی نے ریکارڈ کو چھپانے اور ریکارڈ گم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ تین سال حکومت کرنے کے باوجود بیوروکریسی حکومت کی دسترس سے باہر کیوں ہے۔
حکومت اگر سمجھنا چاہیے تو مسئلہ بالکل سیدھا سادہ ہے۔ اس حکومت میں نہ برے کام کی سزا ہے اور نہ اچھے کام کی جزا۔ ہر چند کہیں کہ حکومت ہے، مگر نہیں ہے۔ ایک اور نقطہ جو قابل غور ہے وہ زرداری صاحب کے بیرون ملک اکائونٹس کے بارے میں ہے جو ریکارڈ حکومت کے تمام ادارے گمشدہ قرار دے چکے ہیں وہ جسٹس عظمت سعید نے تن تنہا ڈھونڈ نکالا۔ کیا تمام افسر اور اہلکار ادھے تھے یا چمک نے ان کی بینائی چھین لی تھی۔ کیا حکومت اس پر غور کرے گی یا حسب سابق مٹی پائو کی پالیسی اپنائی جائے گی۔ جسٹس عظمت سعید نے بعض خبط عظمت میں مبتلا بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی قلعی بھی کھول دی ہے اور براڈ شیٹ کے پے رول پر موجود چند لوگوں کے کردار کی جھلک بھی قوم کو دکھائی ہے۔ قومے فروختند وچہ ارزان فروختند۔ کوئی حکومت سیاستدان سٹیٹ بینک کی نام نہاد آزادی کا دفاع کرنے کے لیے ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ آخر کار گورنر سٹیٹ بینک کو ہی اپنے دفاع کے لیے سامنے آنا پڑا۔ ایک ٹی وی شو میں انہوں نے اعتراضات کے جواب دینے کی کوشش کی لیکن ان کی کارکردگی غیر تسلی بخش تھی۔
ایک سوال کا جواب تو وہ بالکل ہی گول کر گئے کہ یہ تجاویز آئی کہاں سے ہیں۔ ظاہر ہے اس بین الاقوامی ادارے کا نام لیتے ہوئے ان کے پر جلتے ہیں۔ آخر میں ایک درخواست کمرشل ویکسین کے بارے میں۔ حکومت قیمت کم کروانے میں توبے بس ہے لیکن اس دوا ساز ادارے کا نام تو قوم بنا دے جو اس برے وقت میں بھی قوم کو لوٹنا چاہتا ہے اور وہ کونسا وزیر یا مشیر ہے جو دوا ساز ادارے کا پشتی بان ہے۔ منے کے ابا کا کوئی نام بھی تو ہو گا۔