ایڈورڈ سعید کو اس جہان سے گزرے 18 برس ہوگئے۔ یوں کہہ لیجیے کہ لگ بھگ 2 دہائیاں۔ اس کے باوجود اس کی باتیں آج بھی اتنی درست ہیں کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس خونیں مسئلے پر اتنے ماہ وسال گزرگئے ہیں۔
اپنی خود نوشت میں اس نے لکھا ہے:
"مجھے اب رہ رہ کر جو چیز کچوکے لگاتی ہے وہ یہ ہے کہ میرا خاندان کتنی بری طرح اجڑا اور کتنا در بہ در ہوا، مجھے کچھ شعور نہیں تھا کہ میرے خاندان پر کیا قیامت گزر رہی ہے میں صرف ساڑھے بارہ برس کا تھا اور 1948کے واقعات کا بے شعور گواہ۔"
وہ اپنے ان عم زاد بھائیوں کا ذکر کرتا ہے جو اعلانِ بالفور کی شام کو یاد کرکے گریہ وزاری کرتے تھے اور اسے اپنی تاریخ کا سیاہ ترین باب کہتے تھے۔
وہ یروشلم سے نکل کر قاہرہ میں رہنے کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
"ایسا محسوس ہونے لگا تھاکہ ہم فلسطین سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، وہ ہمیں واپس نہیں ملے گا، ہم اس کا صرف ذکر کرسکیں گے، اسے ہم نے خاموشی سے اور بہ صد حسرت و یاس چھوڑا ہے۔"اس وقت سعید تیرھویں برس میں تھا، اس دور کی باتیں اور یادیں وہ اپنی بیوہ پھوپھی نبیحہ کے حوالے سے کرتا ہے جو فلسطینی مہاجروں کے لیے دس برس تک خدمت خلق کا کام کرتی رہی۔ صبح آٹھ بجے سے رات کے 9 بجے تک مسلمان فلسطینی مہاجرین کے لیے دل و جان سے صرف اس لیے کام کرتے رہنا کہ ان کے درمیان فلسطینی ہونے، عرب نژاد ہونے اور عربی زبان بولنے کا رشتہ تھا۔
ایڈورڈ سعید کے سینے میں فلسطینیوں اور عربوں کے لیے لگی ہوئی آگ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کی پھوپھی نبیحہ کو نہیں فراموش کرنا چاہیے جس نے ایڈورڈ سعید کے بقول:"مجھے فلسطین کی بربادی کی تاریخ اور اس کے جلاوطن لوگوں کی الم ناک زندگیوں کی کہانی سنائی۔ وہ خود بھی اس کہانی کا حصہ تھی۔ اس کی قربت سے مجھے معلوم ہوا کہ غریب الوطنی کیا ہوتی ہے؟ جن لوگوں سے ان کی زمین کا فرش اور سر پر سے حکومت کا سایہ چھن جائے، دنیا کا کوئی خطہ انھیں برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو اور کہیں چلے جانے کا راستہ بھی نہ رہے اور ان کا ماضی محض ایک تلخ یاد کے طور پر زندہ ہو، ان کے احساسات کو کوئی بھی دوسرا شخص نہیں سمجھ سکتا …
"بہت سے فلسطینی مہاجروں کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ یہ لوگ وطن کے ساتھ ساتھ صحت سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ مصر کی نئی فضا نے ان کی پرورش کرنا تو دور کی بات تھی، ان میں پہلے سے موجود طاقت بھی نچوڑ لی تھی۔ انقلاب سے قبل اور انقلاب کے بعد کی حکومتوں نے فلسطین کی بھرپور حمایت کے اعلانات کیے تھے بلکہ یہ عہد بھی بار بار دہرایا تھا کہ ان کے صیہونی دشمن کو ملیا میٹ کردیا جائے گا۔ ریڈیو کی وہ نشریات اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں اور عربی فرانسیسی اور انگریزی اخبارات کی وہ شہ سرخیاں بھی نظروں کے سامنے گھوم رہی ہیں جن میں فلسطینیوں کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا جاتا تھا، مگر یہ سارا دکھاوا اور ظاہرداری تھی۔
فلسطینیوں کی یہ مفلوک الحالی، یہ بے چارگی اور بے بسی ان کے دعوؤں کا پول کھول رہی تھی۔ فلسطینیوں کو دھواں دھار تقریروں اور لچھے دار اخباری بیانات کی ضرورت نہیں تھی بلکہ نیک نیتی، خلوص اور سچی ہمدردی درکار تھی جس کا مظاہرہ یہ کمزور و ناتواں ادھیڑ عمر عورت کررہی تھی اور اس راہ میں حائل رکاوٹوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنی قوت ارادی کے بل بوتے پر دن رات محنت کررہی تھی۔"
اپنی زمین سے عشق کا رشتہ، جلاوطنی کا کرب، اپنی پھوپھی کی بے غرض خدمت اور سیاسی شعور کی پختگی نے ایڈورڈ سعید کے اندر فلسطین کے مسئلے کو راسخ کردیا۔ عرب اور فلسطین کازسے اس کی وابستگی کئی مرحلوں سے گزری ہے۔ وہ اس عرب نسل سے تعلق رکھتا تھا، جس نے سرزمینِ عرب کو سلطنت عثمانیہ کے سیاسی، ثقافتی، تہذیبی اور تمدنی تسلط سے آزاد ہوتے اور نئی عرب ریاستوں کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہوتے ہوئے دیکھا۔ مصری رہنما جمال عبدالناصر کی کرشماتی شخصیت نے عربوں کے اتحاد کو ایک ایسا رنگ دیا جو عرب نیشنلزم، اینٹی امپیریلزم، غیر وابستہ تحریک اور افرو ایشیائی تحریک کا رنگ تھا اور عرب تیسری دنیا کا ایک زندہ اور متحرک وجود بن گئے۔
شرق اوسط سے ہزاروں میل دور بیٹھا ہوا ایڈورڈ سعید اُن دنوں کولمبیا یونیورسٹی میں انگریزی اور تقابلی ادب پڑھاتا تھا، اپنی عرب پہچان پر ناز کرتا تھا اور فلسطینیوں کے لیے کڑھتا رہتا تھا۔ بارہ برس کی عمر میں فلسطین سے جدائی اور جلاوطنی کی چنگاری اس کے سینے میں زندہ تھی لیکن اس حوالے سے اس نے اپنا کوئی کردار متعین نہیں کیا تھا۔
1967میں عرب جب اسرائیل سے ہار گئے تو اس کے ساتھ ہی عربوں کے لیے اُس پُرجوش اور ولولہ انگیز دنیا کا خاتمہ ہوگیا جسے جمال عبدالناصر نے ایجاد کیا تھا۔ 1956 میں سویز جنگ نے عربوں کو جس آزادی، خود مختاری اور مغربی استعمار سے آنکھیں ملانے اور پنجہ لڑانے کے جس ذائقے سے آشنا کیا تھا وہ شکست خوردگی اور تحقیر و تذلیل کی کڑواہٹ میں بدل گیا۔
یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے مغرب میں رہنے والے بہت سے عربوں اور بہ طور خاص فلسطینیوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس شکست کی راکھ سے فلسطین کی قومی تحریک کا جنم ہوا جس نے مغرب میں رہنے والے فلسطینیوں اور عربوں کو چونکا دیا۔
1967 کی شکست نے ایڈورڈ سعید کے ذہنی زمین و آسمان بدل کر رکھ دیے۔ زندگی کا یہ وہ مرحلہ تھا جب ایڈورڈ سعید جو شہریت کے اعتبار سے امریکی، پیدائشی طور پر فلسطینی اور خاندان کے حوالے سے عیسائی اور مراتب و مناصب کی رُو سے طبقۂ اعلیٰ کا فرد تھا، وہ ننگے پیر اور ننگے سر رہنے والے، فاقے کرنے، جلاوطنی کا دکھ بھوگنے والے اور اپنے ہی وطن میں بے وطن ہونے والوں کے قبیلے کا ایک فرد ہوگیا۔ اس نے صیہونیوں کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور ان عرب حکمرانوں پر بھی شدید تنقید کی جو اپنی بادشاہت اور صدارت کی خاطر فلسطینیوں کو نیست و نابود ہوتے اور ان کے بنیادی حقوق کو غصب ہوتے دیکھتے رہے لیکن جنھوں نے فلسطینیوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔
ایڈورڈ سعید نے فلسطینیوں کا مقدمہ لڑنے کا آغاز 1968میں کیا اور پھر ستمبر 2003 میں اپنی موت تک وہ یہ مقدمہ پوری قوت سے لڑتا رہا۔ 1977 میں وہ فلسطینیوں کی قومی کونسل کا رکن بنا اور 14 برس تک اس کونسل میں رہنے، قومی کونسل کے انداز فکر کو پسپائی کی طرف جاتے دیکھ کر اور پی ایل او میں نوکر شاہی کے عروج، بدعنوانیوں اور نااہلی کے معاملات سے ذاتی طور پر آگاہ ہونے کے بعد اس نے ستمبر 1991 میں کونسل سے استعفیٰ دیا۔
کونسل سے مستعفی ہوجانے کے بعد وہ مظلوم اور محروم فلسطینیوں سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ وابستہ ہوا۔ اور اس کا قلم مغرب کے اخبارات اور جرائد میں ان کا نقطئہ نظر واضح طور پر پیش کرتا رہا۔ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے مغربی میڈیا، دانشوروں اور امریکی انتظامیہ سے جیسی مسلسل اور مدلل لڑائی سعید نے لڑی اس کی ہم کوئی دوسری مثال نہیں لاسکتے۔ وہ ایک زمانے میں یاسر عرفات کا بہت بڑا مداح تھا عرفات سے اس کی پہلی ملاقات 1974 میں اس وقت ہوئی جب وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہلی مرتبہ نیویارک پہنچے تھے۔ اس موقعہ پر عرفات نے جو تقریر کی، اس کا انگریزی ترجمہ ایڈورڈ سعید نے کیا تھا۔ اس کے بعد بھی اس نے ان کی کئی تقریروں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔
ان برسوں کے دوران وہ عرفات سے بہت قریب رہا لیکن قربت آہستہ آہستہ دوری میں بدلنے لگی۔ اس نے جب کونسل کے اندر عرفات کی آمریت دیکھی تو وہ ان سے علیحدہ ہوا اور فلسطینی اسٹیبلشمنٹ کا شدید ناقد بن گیا۔ اسے دوسرے عرب لیڈروں، فلسطینی رہنماؤں اور دانشوروں سے جو شکایات تھیں، ان کا برملا اظہار کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب اس کی مشہور کتاب The Question of Palestine شایع ہوئی اور بیروت کے ایک پبلشر نے اس کا عربی ترجمہ چھاپنا چاہا تو سعید سے کہا گیا کہ اس میں سے وہ ان حصوں کو حذف کردے جن میں شام، سعودی عرب اور دوسری عرب حکومتوں پر تنقید کی گئی تھی۔
سعید نے اس کی اجازت نہیں دی چنانچہ وہ کتاب عربی میں تو نہ چھپ سکی لیکن اس کا حرف بہ حرف عبرانی ترجمہ اسرائیل سے شایع ہوگیا حالانکہ وہ کتاب بنیادی طور پر صیہونیوں اور اسرائیلی حکومتوں پر شدید تنقید کا مجموعہ تھی۔ (جاری ہے)