Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Farishta Faridoon

Farishta Faridoon

اب سے تقریباً ڈیڑھ ہزار برس پہلے ایران جب فتح ہوا تو زرتشتیوں کے سامنے زندگی اور موت کے درمیان بال برابر کا فاصلہ تھا۔ نئے دین پر ایمان لائیں یا قتل ہوجائیں۔ دارا وکسریٰ کے کاشتکاروں اور آہن گروں کی اکثریت نے نیا دین قبول کیا۔

اشرافیہ میں سے مٹھی بھر ایسے تھے جنھوں نے اپنی بچ رہنے والی مذہبی کتابیں سینے سے لگائیں اور خستہ حال کشتیوں میں بیٹھ کر ہندوستان کا رخ کیا۔ ان میں سے کچھ سمندر کی سرکش لہروں کی نذر ہوئے اور کچھ گجرات اور کاٹھیا وار کی سرزمین پر اترے۔ وہ اپنے ساتھ اوستا کے شکستہ نسخے اور ژند پاژند کے کچھ صفحے ساتھ لائے تھے۔ ان کے ساتھ چند انگیٹھیاں بھی تھیں جن میں وہ مقدس آگ روشن تھی جس کے سامنے وہ ہزاروں برس سے سجدے کرتے آئے تھے۔ یہ آگ جو مقدس تھی اور جسے وہ کسی طور بجھنے نہیں دے سکتے تھے۔

یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ جب وہ ہندوستان کے ساحل پر اترے تو علاقے کے راجا نے انھیں کس طرح پناہ دی اور انھوں نے دودھ کے ایک پیالے میں شکر گھول کر راجا کی خدمت میں پیش کیا اور وعدہ کیا کہ وہ اسی طرح شیروشکر ہوکر ہندوستان کی سرزمین پر رہیں گے۔

راجا نے ان کی بات پر اعتبار کیا، ان کی مقدس آگ کو بھی پناہ دی گئی اوریوں ان خانماں برباد زرتشتیوں نے جو بعد میں پارسی کہلائے ایک نئی زندگی شروع کی۔ اس نئی زندگی میں ان کا مقصد صرف روپے کمانا نہیں تھا بلکہ جو کچھ بھی کماتے اسے اپنے نادار لوگوں پر اور ایسے فلاحی کاموں پر خرچ کرتے جس سے ہندوستان کے غریبوں کو فائدہ ہو۔

فلاحی کام کی یہ روایت پارسی برادری میں آج تک چلی آتی ہے۔ 8مئی 2021 کو کراچی کے جس نام ور اور بے مثال پارسی کا انتقال ہوا، اس کا نام ڈاکٹر فریدوں سیٹھنا تھا۔ اس نے کراچی اور سندھ کے دور دراز علاقوں سے آنے والی غریب عورتوں کی جس طرح خدمت کی، وہ بھلائی نہیں جاسکتی۔

فریدوں نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلا گیا۔ وہاں سے لوٹ کر پھر کراچی آیا اور گائینی اسپیشلسٹ کے طور پر ملازم ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں نے 6 برس تک صرف 600 روپے ماہانہ کی تنخواہ پر کام کیا جو میری ضرورتوں کے لیے ناکافی تھی لیکن میں کیا کرتا۔ اس کایہ جملہ سن کر بے اختیار ان بہت سارے ڈاکٹروں کے نام اور چہرے یاد آئے جنھوں نے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے بعد پاکستان آنے کے زحمت گوارا نہ کی اور ان ملکوں کی قومیت لے لی جہاں وہ سونے کے کان کے مالک ہیں۔

بات ڈاکٹر فریدوں سیٹھنا کی ہورہی تھی۔ فریدوں کراچی کے ایک پرانے اسپتال لیڈی ڈفرن سے وابستہ ہوئے اور آخری سانس تک اسی کو سجاتے اور سنوارتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں وسائل نہیں ہیں تو ہمیں ایسی دایاؤں کی تربیت کرنی چاہیے جو شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں ماں بننے والی عورتوں کی زندگی آسان بنائیں اور جیتے جاگتے بچوں کو دنیا میں لانے کا عظیم فریضہ انجام دیں۔ پاکستان میں نومولود بچوں کی شرح اموات دنیا میں بہت زیادہ ہے، جس سے ڈاکٹر فریدوں سیٹھنا پریشانی میں گرفتار رہتے تھے۔ وہ شہر اور بہ طور خاص غریب بستیوں کی عورتوں میں بہت مقبول تھے۔

لیاری، نانک واڑہ، کھارادر کی ماں بننے والی عورتوں کا خیال تھا کہ فریدوں فرشتہ ہیں، وہ اگر ان کو ہاتھ بھی لگائیں تو نہ صرف ان کی زچگی آسان ہوگی بلکہ نومولود بھی زندہ رہے گا۔ ان کی شہرت پھیل رہی تھی اور ماں بننے والی عورتوں کا خیال تھا کہ فریدوں کا سایہ بھی ان کے لیے رحمت کا سبب ہوگا۔ ایسے میں یہ بات عام ہوگئی کہ وہ بے نظیر بھٹو کے گائناکولوجسٹ ہیں، اس خبر نے ان کی شہرت میں اور اضافہ کیا۔

ڈاکٹر فریدوں ایک نہایت منسکرالمزاج اور خاکسار انسان تھے۔ وہ مجھے جس طرح موت کے منہ سے گھسیٹ کر لائے یہ ان ہی کا کمال تھا۔ میری طبیعت کچھ خراب تھی جسے میں عرصے سے ٹال رہی تھی۔ ایک دن میری دوست ڈاکٹر مونا نقوی مجھے زبردستی ڈاکٹر فریدوں سیٹھنا کے پاس لے گئیں۔ انھوں نے مجھے دیکھا اور کہا کہ " بی بی کل صبح تمہارا آپریشن ہوگا کیوں کہ تمہارے پیٹ میں بڑی رسولی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ صرف رسولی ہے یا کینسر کے ٹشو اس میں بن چکے ہیں " میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ " دس دن بعد میرے بیٹے کے میٹرک کے امتحان ہونے والے ہیں، وہ بہت پریشان ہوجائے گا۔ انھوں نے مجھے گھو رکر دیکھا اور مونا نقوی سے مخاطب ہوکر کہا کہ "اپنی دوست کے لیے لٹھا منگوالو۔"

اس کے بعد کے دن کس قدر ہنگامہ خیز تھے، وہ بیان سے باہر ہیں۔ گرہ میں دام نہ تھے۔ بیگم آمنہ مجید ملک نے کئی مسئلے حل کیے۔ ڈاکٹر فریدوں سیٹھنا نے آپریشن کے نام پر ایک روپیا نہیں لیا۔ دوائیں اتنی مہنگی تھیں کہ پناہ بہ خدا۔ دن میں چار انجکشن لگتے تھے جو اس زمانے میں ڈھائی ہزار روپے کا ایک تھا۔ یہ ساری فراہمی نوشابہ زبیری نے کی جن کے میاں فصیح زبیری ایک مشہور غیر ملکی فارما سوٹیکل فرم کے ایم ڈی تھے۔

دوستوں کی عنایتوں اور مہربانیوں سے وہ نہایت مشکل دن گزر گئے اور بہت سہولت سے گزرے۔ فریدوں اس بات پر خوش تھے کہ 7 کلو کی رسولی میں کینسر کا شائبہ نہ تھا۔ اب سے 25 برس پرانے دن نگاہوں میں گھوم گئے ہیں اور فرشتہ فریدوں کا مسکراتا ہوا چہرہ ابھرتا ہے جس نے زندگی کے 80 برس اس شہر میں گزار دیے۔ ایک ایسے شہر میں جہاں انسانی خون کی بساندھ تھی اور کسی بھی "مومن" کی گولی اس "کافر" کو موت کی نیند سلاسکتی تھی۔ لیکن اس پارسی کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی اور وہ سرجھکائے ان عورتوں کی قطاروں کے درمیان سے گزرتا رہا جو اسے دیوتا مانتی تھیں اور جس کا سایہ ان کے لیے رحمت اور برکت کا سبب تھا۔

آج جب ہم پرانے کراچی کی پرہجوم سڑکوں سے گزرتے ہیں تو ان میں سے نہ جانے کتنے نوجوان اور مرد ایسے ہوتے ہیں جنھوں نے فریدوں سیٹھنا کے ہاتھوں میں جنم لیا اور ان کی ماؤں کے پہلو میں لٹایا۔

فریدوں اس شہر کے بیٹے تھے۔ فرزند زمیں۔ اب سے سیکڑوں برس پہلے ان کے پرکھوں نے پناہ دینے والوں سے جب یہ کہا تھا کہ" ہم آپ کی سرزمین میں شیرو شکر ہوکر رہیں گے "تو ان کے نسلوں نے یہ وعدہ پورا کیا۔ پاکستان ہو یا ہندوستان دونوں ملکوں میں پارسیوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر انسانی خدمت کی۔

جہانگیر فرام روز پنتھکی نے کراچی کے پارسیوں کی ایک ڈائریکٹری مرتب کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ جب 1857 میں ہندو اور مسلمان جنگ آزادی لڑ رہے تھے، اس وقت یہ پارسی تھے جنھوں نے کراچی کی تعمیر میں حصہ لیا۔ انھوں نے ٹھیکیداری کی، ڈاکٹر اور گھڑی ساز ہوئے، ان میں سے کچھ نے شمعیں بنانے میں مہارت حاصل کی اور کچھ ریس کورس کے میدان میں جوکی ہوئے۔ غرض انھوں نے کوئی بھی شعبہ خالی نہ چھوڑا اور جب بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو وہ ہرشعبے میں کام کررہے تھے۔ کراچی کے نامور بیٹوں میں جمشید نسروان جی، ارد شیر کاؤس جی، بہرام آواری اور فریدوں سیٹھنا بالکل سامنے کے نام ہیں۔

ان لوگوں نے تعلیم کے شعبے میں اتنی اعلیٰ کارکردگی دکھائی کہ آج بھی پارسی اسکول یا پارسی ٹیچر ایک نعمت سمجھے جاتے ہیں۔ تقسیم کے فوراً بعد جب تارکین وطن کے بچوں کو اچھے اسکولوں کی ضرورت پڑی تھی تو جناح صاحب نے اپنے پارس دوستوں سے درخواست کی تھی کہ وہ نئے آنے والوں کو ان اسکولوں میں داخلہ لینے کی اجازت دے دیں۔ یہ اجازت دے دی گئی تھی اور اب ماما پارسی گرلز اسکول یا بی وی ایس بوائز اسکول میں گنتی کے چند پارسی لڑکیاں اور لڑکے پڑھتے ہیں، ورنہ اکثریت مسلم بچوں کی ہے۔ ان کو پڑھانے والوں میں پارسی ٹیچر بھی بہت کم رہ گئی ہیں لیکن آج بھی ان اسکولوں میں داخلے کا ملنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

پارسیوں کا ہمارے ادب پر بھی بڑا احسان رہا ہے۔ یہ پارسی مالکوں کی ناٹک منڈلیاں تھیں جنھوں نے اردو کے اچھے اور متوسط درجے کے ڈراموں کو اسٹیج کیا۔ یہ ناٹک منڈلیاں بمبئی، لاہور، دلی اور کلکتہ سے رنگون تک جاتی تھیں اور اپنی دھاک بٹھا کر آتی تھیں۔ ان ہی پارسی تھیٹر کمپنیوں کا کمال تھا کہ آغا حشر کاشمیری کی زبان وبیان کا سارے ہندوستان میں چرچا ہوا۔

وہ دن رخصت ہوئے لیکن آج بھی ہم بپسی سدھوا پر ناز کرتے ہیں جو ہماری بین الاقوامی سطح پر مشہور ناول نگار ہیں اور جن کے ناولوں پر انھیں کئی انعامات مل چکے ہیں۔ انعام کا ذکر ہوا تو یاد آیا کہ ایک انعام فریدوں فرشتہ کو بھی دیا گیا تھا۔ یہ تھا "نشان امتیاز" ان کا اصل انعام تو وہ تھا جو غریب اور بے آسرا عورتوں نے دیا تھا۔ فرشتہ… فریدوں … اس سے بڑا اعزاز بھلا اور کیا ہوسکتا تھا۔

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.