یکم فروری 2021 کو میانمار (برما) کی فوجی جنتا نے ایک بار پھر پسندیدہ کام کیا اور نحیف و نزار جمہوری حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اس قبضے کے دوران 800 سے زیادہ لوگ فوری طور پر ہلاک ہوئے، 5000 لوگ گرفتار ہوئے اور 4000 لوگ ابھی تک حراست میں ہیں، جن میں سے بہت سے نامی گرامی لوگ بھی شامل ہیں۔
آنگ سان سوچی جو مدتوں فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک طویل عرصے تک حراست میں رہی تھیں، وہ آزاد کی گئیں اور حکومت میں شامل ہوگئی تھیں، انھیں بھی گرفتار کرلیا گیا۔
میں نے ان کے بارے میں کئی کالم اور افسانے لکھے، میرے لیے ان کا فوجی حکومت میں شامل ہونا صدمے کی بات تھی، وہ یقیناً فوجی جرنیلوں کے وعدوں پر اعتبار کرکے حکومت کا حصہ بنی تھیں لیکن مجھ ایسے بہت سے لوگوں کو جرنیلوں کی بات پر اعتبار نہیں آیا تھا، اسی لیے ہم نے ان کی حمایت نہیں کی تھی اور اب حالیہ فوجی بغاوت نے ثابت کردیا کہ ہم درست تھے۔ فوجی حکومت ان پر اب غداری کا مقدمہ چلانے کی تیاری کررہی ہے۔
شاید ان سے زیادہ سیاسی شعور تو اس لڑکی میں تھا جس کا نام تھوزار ونٹ لیون Thuzar Wint Lwin ہے اور جو فلوریڈا امریکا میں مس یونیورس کے مقابلے میں شرکت کررہی تھی۔ اس مقابلے کے دوران جب وہ اسٹیج پر آئی تو اپنے قومی لباس میں تھی اور اس نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اُٹھایا ہوا تھا اس میں بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا کہ "آپ لوگ میانمار کے لیے دعا کیجیے۔" اس نے کہا "ہمارے لوگ مارے جارہے ہیں، ان کے لیے دعا کریں۔"
کیسی عجیب بات ہے کہ یہ لڑکی اور بہت سے دوسرے لوگ جو فیشن کی دنیا سے وابستہ ہیں۔ وہ اس طرح سوچ رہے ہیں اور آنگ سان سوچی جانے کس خوش فہمی میں تھیں کہ انھوں نے فوجی جنتا سے صلح کرلی اور اس کے ساتھ حکومت میں شامل ہوگئیں۔ ان کے اس رویے کے خلاف کئی نوبیل انعام یافتگان نے احتجاج کیا۔ فوجی جنتا میں شمولیت ان کی توقیر میں کمی کا سبب بنی۔
گزشتہ 70 برس سے برما کے شاعروں اور لکھاریوں نے اپنی فوج کے خلاف لفظوں سے لڑائی لڑی ہے۔ یہ شاعر اور لکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم رائفل اور بم نہیں رکھتے، ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔ ہمارے پاس صرف لفظ ہیں اور ہم ان ہی سے اپنے لوگوں کے جمہوری حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اس فوجی بغاوت کے بعد جو دو برمی شاعروں کو سرپر گولی مار کر ہلاک کیا گیا تو تیسرے شاعر نے لکھا:
وہ گولی سر میں اتارتے ہیں
لیکن وہ نہیں جانتے
کہ انقلاب دل میں رہتا ہے
اور جب تیسرا باغی شاعر بھی ہلاک کردیا گیا۔ یہ شاعر جس کا نام کھیت تھی Khet Thi تھا، وہ اپنے گھر سے اٹھایا گیا اور پھر اس کی بیوی کو گھر سے اسپتال بلایا گیا۔ اس کی بیوی نے بی بی سی برمی سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اس کا وہ بدن جو اسے دیا گیا وہ خالی ڈھانچہ تھا۔ اس کے سارے اعضا نکال لیے گئے تھے۔ اس سے پہلے جنتا نے ہر اس خیال کو کچلنے کی کوشش کی ہے جس نے لوگوں کے سینے میں بغاوت کی آگ بھڑکائی ہے۔ PEN ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جو یہ خبر رکھتی ہے کہ کس ملک کا کون سا لکھاری اور کون سا شاعر کس مشکل میں گرفتار ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک شاعر کو پیٹرول چھڑک کر جلادیا گیا۔
آنگ سان سوچی کی حکومت جب برسراقتدار آئی تو گیارہ شاعر ان انتخابات میں جیت کر آئے۔ سنسر شپ کی پابندیاں قدرے نرم ہوئیں، اس کے باوجود لوگوں کو سنسر شپ کا خوف تھا۔ ان میں کے زا ون K Za Win بھی تھا جس نے کیک اور آئسکریم بیچ کر اپنا گزارا شروع کردیا تھا۔ اسے انھوں نے ایک احتجاجی جلوس میں نشانہ بناکر مارا اور اپنے خیال میں اس سے نجات حاصل کرلی۔ لیکن یہ مارنے والوں کی غلط فہمی تھی۔ گوشت پوست کے بدن کو گولی ماری جاسکتی ہے، اسے تیل چھڑک کر راکھ کیا جاسکتا ہے لیکن لفظ انسان کے بدن سے زیادہ زندہ ہوتے ہیں۔ وہ دوسری سماعتوں اور دوسرے ہونٹوں پر پہنچ کر زندہ رہتے ہیں۔
لفظوں کی قوت اور طاقت کو ہم اس سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہزاروں برس نظمیں، سیکڑوں برس پرانی کہانیاں ہم تک پہنچتی رہتی ہیں۔ ان کے کہنے والے، ان کے لکھنے والے چلے گئے لیکن ان کی دانائی زندہ ہے اور ہم تک پہنچتی ہے، ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ آخر میں یہ نظم جس کا عنوان "آخری قطرہ" ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے ہم نے
پانی کے دو قطرے دیکھے
ایک، جو پہلا بن کر ٹپکا
دوسرا آخری قطرہ تھا
پہلا قطرہ سب سے بہادر
سب سے ہمت والا
مجھ کو مگر اچھا لگتا تھا
آخری قطرہ بن کر گرنا
وہ قطرہ جو آخر ہم کو
منزل پر پہنچائے
جہاں ہمیں آزادی ہو
لیکن میں اس سوچ میں گم ہوں
پہلا قطرہ کون بنے گا؟
ہم سوچ میں گم رہتے ہیں اور میانمار کے لوگوں کے لیے اور ظلم میں گھرے ہوئے لوگوں کے لیے دعا کرتے ہیں خواہ وہ کہیں بھی ہوں۔