پرانے کراچی کے بہت پرانے پیڑ برگد اور نیم کے۔ مغرب کی اذان ہونے والی ہے۔ ہم کوشش کے باوجود وقت پر نہ پہنچ سکے۔ ایک نرم دل اور خوش بیان شخص کا جنازہ اٹھ گیا۔ وہ اپنے دوستوں ار دلداروں کے شانوں پر اپنی آخری منزل کی طرف رواں ہے۔
گاڑیوں کی ایک لمبی قطار، ہم ایک کونے میں ہوجاتے ہیں، وہ گزرجائیں تو ہم آگے بڑھیں۔ کچھ دیر بعد گاڑیاں اور میت بسیں گزر جاتی ہیں اور ہم باتھ آئی لینڈ کے اس گھر کی راہداری میں داخل ہوجاتے ہیں جس پر چند دنوں پہلے تک وہ چہل قدمی کرتے تھے۔ اب ان کی پرسہ دار عورتوں کے بچے دوڑتے پھرتے ہیں۔ بچے جو آنے والے دنوں کا سندیسہ ہیں۔ یہ سابق صدر پاکستان ممنون حسین کا آخری آشیانہ ہے۔
گھر کے مختلف کمروں میں خواتین بھری ہوئی ہیں اور قرآن خوانی میں مصروف ہیں۔ فاطمہ حسن اور میں بیگم محمودہ ممنون حسین کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں۔ وہ ان کی باتیں بہت من موہنے انداز میں کررہی ہیں۔ اس شخص کی باتیں جو پچھلے دنوں صدر پاکستان تھا۔ میں نے اس وقت بھی انھیں دیکھا تھا اور آج بھی دیکھ رہی ہوں۔
مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب کراچی کی ایک تقریب میں ماہنامہ عصمت کی 105 ویں سالگرہ منائی جارہی تھی 2013 کی اس محفل کے مہمان خصوصی جناب ممنون حسین تھے۔ ان کی آمد کو میں ذاتی طورپر اپنی عزت افزائی سمجھ رہی تھی۔ انھوں نے جب صدارتی حلف بھی نہیں اٹھایا تھا۔ کراچی کے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس میں ملاقات کے دوران میں نے ان سے عرض کیا تھا کہ وہ تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں کی بہ طور خاص سرپرستی کریں۔ اس کے بعد جب مجھے معلوم ہوا کہ عصمت، کی مدیر صفورا خیری اس کی 105 ویں سالگرہ منارہی ہیں تو میں نے انھیں یہ پیغام بھجوایا کہ وہ اس تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر قدم رنجہ فرمائیں اور ہمیں ممنون کریں۔
ممنون حسین صاحب اس محفل میں تشریف لائے اور ایک صد سالہ ادبی اور تہذیبی روایت کو زندہ رکھنے اور اسے بڑھاوا دینے کے لیے انھوں نے دس لاکھ روپے بھی عصمت، کوعطیہ کیے تو میری ممنونیت میں دو چند اضافہ ہوا۔ اس روز انتظار حسین، ڈاکٹر اسلم فرخی بہ زبان ڈاکٹر آصف فرخی، حسینہ معین اور یہ خاکسار ماضی کی چلمن سے جھانک کر ان دنوں کو یاد کررہے تھے جب ان کی مائوں نے انھیں عصمت، سے متعارف کرایا تھا۔ انتظار حسین بچپن کے ان دنوں کو یاد کر رہے تھے جب انھوں نے عصمت کے بانی علامہ راشد الخیری کی تصویر دیکھی تھی۔
ڈاکٹر اسلم فرخی اس تخت کو یاد کررہے تھے جس پر ان کی والدہ گھر کے بچوں اور بچیوں کو اکٹھاکرکے انھیں "عصمت" سے کہانیاں اور مضامین سنایا کرتی تھیں۔ خاندان کے بچوں کو ہدایت تھی کہ ڈاکیے پر نظر رکھیں جو ہر مہینے کی ابتدائی تاریخوں میں عصمت، کی رجسٹری لاتا تھا۔ حسینہ معین کو اپنی اماں کی شیشوں والی وہ الماری یاد آرہی تھی جس کے سب سے اوپر کے طاق میں ایک طرف قرآن رکھا رہتا تھا اور اسی کے ساتھ عصمت، کے مجلد شمارے تھے جس سے انھوں نے پڑھنا اور پھر لکھنا سیکھا تھا۔
کچھ یہی عالم فاطمہ حسن کا اور میرا تھا لیکن عصمت، کے بارے میں دل کو چھو لینے والی یادیں امریکا سے آئے ہوئے نظم کے بے مثال شاعر ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی تھیں۔ انھوں نے اپنے من موہنے لفظوں سے ہماری نگاہوں کے سامنے اس آنگن کی تصویر کھینچ دی جس میں ان کی اماں ودیہ ونتی لالٹین کی روشنی میں عصمت، پڑھتی تھیں اور جس کی وہ سالانہ خریدار تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دن تھے۔ گائوں بھر کی عورتیں ان کے پاس محاذ جنگ سے آنے والے خط پڑھوانے اور ان کے جواب لکھوانے آتی تھیں۔
رات میں یہی عورتیں ان کے گھر آتیں، ان کے لیے کھجور کی چٹائیاں بچھائی جاتیں اور تحصیل تلہ گنگ کے گائوں کوٹ سارنگ میں رہنے والی ودیہ ونتی ان عورتوں کو عصمت، میں شایع ہونے والی کہانیاں، قصے اور اصلاح معاشرہ پر چھپنے والے مضامین سناتیں۔ ڈاکٹر ستیہ پال کی یہ باتیں سن کر میری بیٹی فینانہ جو دبئی سے آئی ہوئی تھی اور اس تقریب میں شریک تھی، اس نے کہا تھاکہ آج کسی کو یقین نہیں آئے گا کہ اب سے 70 اور 80 برس پہلے کے قصبوں اور دیہاتوں میں رہنے والی ہندو یا سکھ عورتیں اردوپڑھتی تھیں اور عصمت، ایسے رسالے کی سالانہ خریدار ہوتی تھیں۔
یاد آتا ہے سالہاسال پہلے کی بات ہے جب ممنون صاحب سے میری پہلی ملاقات ایک تقریب میں ہوئی۔ اس کے بعد چند اور ملاقاتیں رہیں محسوس ہوا کہ شعر و ادب میں دلچسپی رکھنے والے یہ صاحب صنعت و تجارت کے معاملات سے تعلق رکھتے ہیں، درس نظامی کو نامکمل چھوڑ دینے والے ممنون صاحب نے بزنس ایڈمنسٹریشن کو گھول کرپیا ہے۔ وہ خطے اور دنیا کے معاملات میں گہری دلچسپی لیتے ہیں اور اس بات پر کڑھتے رہتے ہیں کہ ہم تمام قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے اور نہایت ذہین افرادی قوت رکھنے کے باوجود ترقی معکوس کیوں کررہے ہیں، پھر سنا کہ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے ہیں۔
قدرے حیرت بھی ہوئی لیکن اس سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ میاں نواز شریف نے انھیں سندھ کی گورنری پر مامور کردیا ہے۔ سندھ آج سے نہیں کئی دہائیوں سے ایک نہایت مشکل صوبہ ہے۔ اگر کوئی شخص انصاف پسند ہے تو اس کے لیے گورنری کانٹوں کے تاج سے کم نہیں۔ ممنون صاحب کے بارے میں خبریں آتی رہتی تھیں کہ وہ رات گورنر ہائوس میں نہیں گزارتے، گھر چلے جاتے ہیں، وہ برنس روڈ کے پرانے باسی رہے ہیں اور ان کے پڑوسی اس بات پر ناز کرتے تھے کہ ہماری گلی میں رہنے والا صوبے کا گورنر ہوگیا ہے۔ کراچی والے بھی خوش ہوئے کہ ہم میں سے ایک ایسا شخص گورنر ہوا ہے جو نسلی یا لسانی تعصبات نہیں رکھتا، اور منصف مزاج ہے۔
کراچی والوں کو یہ خوشی زیادہ دنوں راس نہیں آئی، جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا، جمہوریت کی بساط لپٹ گئی تو اس کے ساتھ ہی ممنون صاحب بھی گورنر ہائوس سے اٹھ کر اپنے گھر چلے گئے۔ ڈکٹیٹر شپ کے خلاف ان کا پہلے دن سے وہی موقف رہا جو کسی بھی جمہوریت پسند اور اصول پرست فرد کا ہونا چاہیے۔ معزول وزیراعظم نواز شریف اور ان کے گھرانے پر کڑا وقت پڑا تو یہ بہ بانگ دہل میاں صاحب کے ساتھ رہے۔
پاکستان واپس آنے اور جمہوریت بحال ہو جانے کے بعد جب کہ نواز شریف وزیراعظم ہوئے تو انھوں نے قصر صدر میں متمکن ہونے کے لیے ممنون صاحب ایسے شخص کا انتخاب کیا جودو ٹوک بات کہنے میں دیر نہیں لگاتا، انھیں اگر کسی مسئلے پر میاں صاحب سے اختلاف ہو تو اس کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ ایک "فدوی" صدر ثابت ہونگے لیکن انھوں نے ثابت کیا کہ وہ پاکستان کے مختلف مسائل کے بارے میں اپنا ایک واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
ممنون صاحب کی ادب دوستی سے سب واقف تھے لیکن ایوانِ صدر میں جب ان کی ہدایت پر 23 مارچ کے حوالے سے ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تو ان کی یہ بات بہت بھلی محسوس ہوئی کہ وہ سامعین میں تھے اور مشاعرے کی صدارت عطا الحق قاسمی کررہے تھے۔ ممنون صاحب اور بیگم محمودہ ممنون حسین خوش ہوکر داد دیتے رہے۔ بدعنوانی سے ممنون صاحب کو بغض اور بیر تھا۔ وہ بجا طور پر بدعنوانی کو پاکستانی سماج کے تمام مسائل کی بنیاد سمجھتے تھے۔
مشاعرہ ختم ہوا اور وہ کچھ کہنے کے لیے کھڑے ہوئے تو انھوں نے کہا کہ بدعنوانی ہمیں دیمک کی طرح چاٹ گئی۔ پہلے کوئی شخص بدعنوان ہوتا تھا اور اس کے پاس ناجائز ذرایع سے دولت آجاتی تھی تو لوگ ایسے شخص سے ربط ضبط رکھنا اپنی توہین سمجھتے تھے لیکن آج صورتحال اس کے برعکس ہے۔
نرم گفتار ممنون حسین ابدی نیند سونے چلے گئے ہیں۔ ان کے اصول ان کی رواداری اور دریا دلی کے سوتے خشک ہوگئے ہیں۔ ان کاتعلق تیزی سے رخصت ہوتی ہوئی اس نسل سے تھا جس میں رواداری، تحمل، انکساری، انسان کااحترام، ادب دوستی اور لوگوں کی بلاامتیاز خدمت جیسی اقدار پائی جاتی تھیں۔ ہمارا معاشرہ ان اقدار سے محروم ہوتا جارہا ہے، جس کادکھ انھوں نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ضرور محسوس کیا ہوگا۔