معروف دانشو ر اور معیشت دان قیصر بنگالی نے بھی حسن ناصر کو بڑے پراثر انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:پاکستان نے حسن ناصر کے نام سے دو عوامی سورما پیدا کیے۔
ایک کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا اور بعد میں نیشنل عوامی پارٹی کا کا رکن تھا جس نے اپنی زندگی کا مطمع نظر مزدور و کسان اور طلباء کی حکمراں طبقہ کی سامراجی حرکات کے خلاف جدوجہد کو ترتیب کرنا تھا۔ انھیں 1960 میں حکومت وقت نے گرفتار کیا اور قلعہ لاہور کے سیل نمبر13 میں ظلم و جور کے ساتھ قتل کردیا۔
صرف دس سال بعد ایک اور حسن ناصر اُٹھے اور عوامی فلاح کے لیے یکسر دوسرا راستہ اختیار کیا جو امن اور صلح پسند تھا۔ یہ شخص انجینئر تھا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سماجی و معاشرتی بہتری کے ارادے کے ساتھ آگے بڑھا۔ کوئٹہ کے ایک اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کی بنا پر اسے بلوچستان سے خاص انس تھا۔ لہٰذا اپنی پیشہ ور زندگی بلوچستان میں ناصر جیوٹیکنکس کے نام سے ایک فرم بنا کر شروع کی اور وہ حکومت بلوچستان کے مشیرمقرر ہوئے۔
حسن ناصر انتہائی زیرک اور دُور بین انسان تھے اور اس خطہ کی ترقی اور اس کے خدو خال کی تبدیلی کے لیے معاشیاتی راستوں اور راہوں کو استعمال کرنے کے لیے خواستگار تھے۔ ابتدا ہی سے انھیں بلوچستان کے سب سے بڑے مسئلے یعنی پانی کی اہمیت کا احساس اور ادراک تھا، لہٰذا انھوں نے اپنی ماہرانہ تربیت اور حرفت آبی ذخائر کی حفاظت اور کفایتی استعمال کی طرف مرکوز کردی۔ پانی آج بھی بلوچستان کا اول ترین مسئلہ ہے۔ وہ ایک رہنما تھا جو اُن نت نئی راہوں کا متلاشی تھا جو فلاح و ترقی کی طرف لے جا سکیں۔ اوائل 1970 سے ہی انھیں احساس تھا کہ قدرتی گیس ایک بیش قیمت قدرتی منبع ہے جسے گھر میں جلانے سے اس کا ضیاع ہوگا بلکہ اس سے بلوچستان میں ایک پیٹروکیمیکل صنعت بنانے کا عندیہ اور غور و خوص کرنے کا احساس دیا۔ کتنی بد نصیبی کی بات ہے کہ چار دہائیاں گزر جانے کے بعد گیس جل چکی ہے اور آج پاکستان قریبی ممالک سے گیس درآمد کرنے پر بات چیت اور گفت وشنید میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔
حسن ناصر اپنے وقت سے بہت آگے تھے۔ وہ شمسی توانائی کا ان دنوں میں سوچ رہے تھے جب یہ خیال مغرب میں بھی ابھی ترقی کے ابتدائی مراحل طے کررہا تھا۔ یہ امر کہ 1970ہی میں انھوں نے کوئٹہ میں ایک شمسی وسائل مرکز قائم کرنے کا مشورہ دیا تھا، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان کے اندر کتنی بصیرت پوشیدہ تھی۔ افسوس کہ آج پاکستان میں اس موضوع پر کوئی تحقیقی اِدارہ موجود نہیں اور ماسوائے رومانی داستانوں کی مانند لفاظی سے بھرپور تقاریر کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ انھوں نے ہوا کو زیر اثر کرکے توانائی بنانے کے مختلف امکانات کو قبل از وقت دیکھ لیا تھا اور ان مقامات کی نشاندہی شروع کردی تھی جہاں ہوا کو قابو کرکے برائے نمود توانائی کااستعمال کیا جاسکتا ہے۔
چاردہائی گزرنے کے باوجود آج پاکستان صرف تجربات کی دہلیز پر قدم رکھ پایا ہے کہ چھوٹے موٹے ہوائی توانائی کے منصوبے بن سکیں۔ ان کی نظر ایک طرف تو قدرتی وسائل پر تھی تو دوسری طرف وہ انسانی ذرائع برائے ترقی سے بھی واقف تھے۔ یہ بات اس لیے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ انھوں نے ایک انجینئرنگ یونیورسٹی قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ آج یوں تو کئی انجینئرنگ کالج موجود ہیں مگر ان سے فراغت پانے والوں کے معیار کے بارے میں کافی آرزوئیں نامکمل ہیں اور بالخصوص بلوچستان توکان کنی کی ٹیکنالوجی کے معاملے میں بالکل ہی مفلوک الحال یا محتاج ہے اور اپنے لامتناہی زیر زمین قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کے قابل ہی نہیں ہے۔
حسن ناصر دس مئی 1974 کو قلات کے قریب ہربوئی گئے تھے جس کا مقصدجامعہ بلوچستان کے لیے ایک بنیادی افرادی سروے رپورٹ کی تیاری تھا، وہیں انھیں اور ان کے ساتھیوں کو انتہائی سفاکی سے قتل کردیا گیا۔ آج تک یہ قتل ایک معمہ ہے جب کہ انصاف کے تقاضے اور تکمیل قابل حصول ہیں۔ موزوں ترین سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ انھیں کس نے قتل کروایا بلکہ کیوں کروایا؟ حسن ناصر ایک انقلابی تھے لیکن صلح پسند۔ ان کا محض ایک مقصد تھا اور وہ یہ کہ بلوچستان کی معیشت بہتر ہوجائے اور غالباً یہی ان کا سب سے بڑا جرم بن گیا۔
جمود(Status quo) کے برقرار رکھنے والوں اور دیرینہ سماجی اور سیاسی ڈھانچہ کو بر قرار رکھنے والے بااثر لوگوں کے لیے ایک انقلابی تبدیلی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے اور ان کے اختیار، قوت اور طاقت کے لیے ایسے اصلاحی و ایثار پسند افراد کی کاوشیں خطرہ بن جاتی ہیں لہٰذا وہ دشمن بن جاتے ہیں اور ظاہر ہے دشمن کو راہ سے ہٹادینا لازمی ہوتا ہے۔ حسن ناصر نے بلوچستان کی فلاح کا ایک خواب دیکھا اور نتیجتاً انتہائی قربانی دینی پڑی۔ ہاں مگر وہ دِیا جو انھوں نے اپنے لہو سے جلایا تھا، اس کی روشنی سے اندھیرے راستے روشن ہوئے اور وہ راہیں جو انھوں نے تلاش کیں ان پر سفر جاری رکھنا لازمی ہے، اور یہی دراصل حسن ناصر کے لیے موزوں ترین نذرانہ ہوگا اور بلوچستان کے عوام کے لیے بھی جن کے لیے وہ زندہ رہے اور بالآخر مارے گئے۔
اس کتاب میں بلوچ رہنما سردا ر اخترمینگل کا ایک اہم مضمون شامل کیا گیا ہے جس میں وہ بلوچستان کے مسئلے کا معروضی تجزیہ پیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: تعلیم اور معاشی نمو کسی بھی قوم کی ترقی کی پیشگی اور ناگزیر ضرورت ہے۔ گزری ہوئی چھ دہائیوں کے دوران تعلیم اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بجائے بحری اڈے، فوجی چھاؤنیاں، سرحدی چوکیاں، کوسٹ گارڈ کی چوکیاں اور قلعے طاقت کے زور پر قائم کیے گئے ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ حسن ناصر کا قتل ایک انتہائی المناک واقعہ تھا۔
وہ بلوچستان میں خوش حالی لانے کے لیے جو کام کررہے تھے، یہ واقعہ اسے روکنے کی ایک کوشش تھی۔ وہ بہت بڑے پیمانے پر صوبے میں معاشی تبدیلی لانے کے لیے پر عزم تھے۔ ان کا تجربہ خود ان کے اپنے الفاظ سے صاف عیاں ہوتا ہے۔ انھوں نے اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بنگلہ دیش کی محرومی دیکھ چکے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ انھوں نے بنگلہ دیش جیسی ایک دوسری صورتحال پیدا ہونے کے حوالے سے متنبہ کیا تھا۔ بنگلہ دیش کی تخلیق میں کردار ادا کرنے والی ایک اہم وجہ وہاں کے بے یارو مدد گار لوگوں کی شدید محرومی اور مفلسی تھی۔ تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہونے والی زیادتیوں اور غیر معمولی محرومی کا ذمے دار کسے ٹھہرایا جائے؟ اس سوال کا واقعتاً جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تاریخ اس المیے کی ایک باوثوق شہادت کا خود ایک ذریعہ ہے۔
بلوچستان اگرچہ پاکستان کا ایک سب سے امیر ترین صوبہ ہے لیکن اسے انتہائی حد تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ بلوچستان کی ترقی میں کئی عوامل رکاوٹ بنتے رہے ہیں، لیکن تمام متعلقہ عناصر اپنے اقدامات کا الزام قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ وہ مختلف عناصر جنھیں بلوچستان کی محرومی وپسماندگی کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے ان میں صوبے کا جغرافیائی تزویراتی محلِ وقوع، بالادست قبائلی نظام، نوکر شاہی اور حکومت شامل ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ بلوچستان کے جغرافیائی تزویراتی محلِ وقوع کو چھوڑ کر یہاں جو دیگر عوامل بیان کیے گئے ہیں انھوں نے بلوچستان کی محرومی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
بلوچستان میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں قبائلی نظام اب باقی نہیں رہا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان علاقوں کی ترقی کیوں نہیں ہوئی ہے؟ ہر حکومت کے مطابق صرف تین سرداروں کو چھوڑ کر باقی تمام سردار حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور بلوچستان کی ترقی کے حامی ہیں۔
تاہم، یہاں ایک متعلقہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے حامی سرداروں نے اپنے علاقوں کو کس حد تک "ترقی" دینے میں مددکی ہے؟ اگر بغور تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ علاقے اس وقت بھی صحت، پینے کے پانی، مواصلاتی اور تعلیمی سہولتوں سے محروم ہیں جو قانون کے تحت ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ان علاقوں کی پسماندگی کا ذمے دار کسے ٹھہرایا جانا چاہیے جس پر حکومت کے حامی سرداروں کی حکمرانی ہے۔ حکومتوں نے ہمیشہ تین سرداروں یعنی بگٹی، مینگل اور مری پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ بلوچستان کی ترقی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کرار حسین، حسن ناصرکو بہت پسند کرتے تھے۔ ان کے المناک قتل پر کرار صاحب نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ اس نے ایک دیوانے کی طرح کیا۔ ایک ایسا جنونی جو بلوچستان کے سیاہ پوش اور بنجر پہاڑوں اور میدانوں کی بھرپور شادابی، گنگناتی زندگی اور سود مند سرگرمی کے خواب دیکھتا تھا۔
سید حسن ناصر نام کے دو عوامی سورما عوام پرنثار ہوگئے لیکن ان کے خواب اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک خواب دیکھنے والے اورخوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے والے زندہ ہیں۔