Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sibte Hassan Ki Yaad Mein (1)

Sibte Hassan Ki Yaad Mein (1)

یقین نہیں آتا کہ سبطے صاحب کو ہم سے جدا ہوئے 35 برس گزرگئے۔ 1986 کے دن تھے جب وہ ہندوستان میں ہونے والی انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کانفرنس میں شرکت کے لیے دلی پہنچے تھے۔ بہت تھکے ہوئے تھے، وطن لوٹ کر آنے کے جذباتی دبائو سے نڈھال تھے۔

ہم لوگوں نے انھیں ایک ہال کے فرش پر اخبار بچھا کر سوتے دیکھا تو مضطرب ہوگئے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہونے کے لیے دلی آئے ہیں۔ دلی میں وہ جس طرح جان سے گزرے اور پھر ان کے چہیتے دوست سجاد ظہیرکی بیٹی نور ظہیر ان کے جسدِ خاکی کو لے کر کراچی آئی، یہ تمام دل فگار باتیں اب کیا دہرائیں۔

نوجوان 40کی دہائی میں بھی ہندوستان سے امریکا جاتے تھے تو ان کا مقصد اپنی زندگی سنوارنا ہوتا تھا۔ وہ امریکا گئے تو وہاں بھی ان کا قبلہ انقلاب اکتوبرکی طرف راست رہا جس کا نتیجہ چند دنوں کی جیل اور پھر امریکا سے ملک بدری کی شکل میں نکلا۔ کمیونسٹ پارٹی سے ان کی وابستگی نے پاکستان میں ان کی زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنایا۔

جیل، پریشان حالی اور ایوب دورکی سختیوں کی بھٹی سے وہ کندن بن کر نکلے۔ زندگی کے آخری بیس برس ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی شادابی اور سرشاری کے دن تھے۔ انھوں نے جو کتابیں لکھیں وہ اپنے مشکل موضوعات کے باوجود ہاتھوں ہاتھ لی گئیں۔ پاکستان جہاں ادیبوں اور دانشوروں کو اپنی ایک ہزار کتابوں کے فروخت نہ ہونے کی شکایت رہتی ہے، اُسی ملک میں سوشلسٹ نظریات و افکار کے موضوعات سے بحث کرنے والی ان کی کتابیں مقبول عام ناولوں کی طرح ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوئیں اور سالہا سال Best Seller رہیں۔

آج بھی ان کی کتابوں کے نئے ایڈیشن شایع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے قارئین کا سب سے بڑا حلقہ سندھ اور بلوچستان تھا جہاں کے نوجوانوں کی ذہنی نشوونما پر ان کی کتابوں نے گہرے اثرات مرتب کیے اور آج بھی ان صوبوں میں وہ نظریاتی پیرو مرشد کے طور پر یادکیے جاتے ہیں۔

پاکستان کے موجودہ سیاسی تناظر میں ان کی تحریریں بے حد اہمیت کی حامل ہیں۔ انھوں نیبالخصوص "تھیوکریسی" اور "سیکولرازم" کے موضوعات پر80 کی دہائی کے پہلے دو برسوں میں جو مضامین قلم بند کیے تھے، وہ آج دہائیوں بعد بھی بھرپور معنویت رکھتے ہیں، لیکن یہ ہمیں اس افسوس ناک حقیقت سے بھی آشنا کرتے ہیں کہ پاکستان کے ٹہرے ہوئے سماج میں بات آگے نہیں بڑھی اور تازہ ہوا کا جھونکا کہیں سے بھی در نہیں آیا۔

قیام پاکستان کے وقت یہی سمجھا جا رہا تھا کہ اس نئے ملک میں ایک زندہ اور متحرک سماج نموپذیر ہوسکے گا اور یہاں تدبروتفکر کے ذریعے آگے بڑھنے کی راہیں نکلیں گی۔ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ مسلمان اکثریت پر مشتمل ایک جدید اور روشن خیال سماج ہوگا جہاں لوگ آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ افکار کا حق رکھیں گے جہاں جمہوریت پروان چڑھے گی اور ہر شخص کو اس کے بنیادی انسانی حقوق ملیں گے۔

وہ ملک جہاں ایک زندہ اور متحرک انسان دوست سماج وجود میں آنے والا تھا وہاں انتہا پسندی اورفرقہ واریت اپنے عروج کو پہنچی۔ ابتداء سے ہی جاگیرداروں، سول اور فوجی اشرافیہ کا مثلث وجود میں آیا جو آج ہمارے لیے پیر تسمہ پا بن چکا ہے۔ وہ کارواں جو ایک جدید اور روشن خیال سماج کی تشکیل و تعبیر کے لیے روانہ ہوا تھا، وہ کب کا اپنی منزل سے بھٹک چکا، اس کے مقاصد طاقِ نسیاں پر رکھے گئے۔

حکمران جرنیل کبھی اس ملک کو اسلام کا قلعہ بنانے کی دعویداری کرتے ہیں اوراپنے اقتدار کی مدت دراز کرتے ہیں کبھی ان کے دوسرے وردی پوش بھائی بند اسے ایک روشن خیال اور اعتدال پسند ریاست بنانے کی نوید سناتے ہیں اور جن پر تنقید کرتے ہیں، ان ہی کے مطالبات پر سر تسلیم خم بھی کرتے ہیں۔ حقیقی حزب اختلاف کی جگہ ایک مصنوعی حزب اختلاف بنائی جاتی اور پرورش کی جاتی ہے تاکہ بہ وقت ضرورت امریکا کو ڈرانے کے کام آسکے۔ نہ پہلے کو اسلام سے غرض تھی نہ دوسرے کو روشن خیالی یا اعتدال پسندی سے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں اسلام بھی سر بہ گریباں ہے اور روشن خیالی بھی اپنے نصیبوں کو روتی ہے۔

تاریخ کے وسیع تر ارتقائی تناظر میں تھیوکریسی کے حوالے سے سبط حسن نے اب سے دہائیوں پہلے لکھا تھاکہ یہ کوئی ابدی اور مقدس نظریہ ریاست نہیں ہے بلکہ سماجی ارتقا کے ایک مخصوص عہد میں تاریخی ضرورتوں کے تحت وجود میں آئی اور جب یہ ضرورتیں باقی نہیں رہیں تو تھیوکریسی کا بھی وہی انجام ہوا جو غلامی کا ہوا تھا۔ تھیوکریسی، جمہوریت اور جمہوری قدروں کی نفی کرتی ہے۔۔۔۔ یہ ان عناصر کا آخری حربہ ہے جو مذہب کی آڑ میں فیوڈل ازم اور فیوڈل قدروں کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں اور عوام کو ان کے پیدائشی حقوق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔

تھیوکریسی کے بارے میں ان کی یہ تحریر آج بھی پاکستان کے موجودہ حالات میں، ایک حقیقی جمہوری اور روشن خیال نظام کے قیام کی جدوجہدمیں ایک موثر ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس طرح جب وہ اسی مضمون میں گل گامش کی ہزاروں برس پرانی داستان کاحوالہ دیتے ہوئے یہ جملہ نقل کرتے ہیں کہ: "گل گامش ایوانِ شوریٰ میں زبردستی گھس آیا ہے حالانکہ یہ عمارت شہریوں کی ملکیت ہے"

تو کیا ہزاروں برس پرانی اس داستان کا یہ جملہ پڑھ کر ہمیں پاکستان کی مختصر تاریخ کے وہ تمام گل گامش یاد نہیں آتے جو پارلیمنٹ یعنی ایوان شوریٰ کے وقار کو بار بار پامال کرتے رہے ہیں جہاں پاکستانی شہری اپنے نمایندوں کو منتخب کرکے بھیجتے ہیں۔ اسی طرح ایک جگہ وہ ماضی بعید کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں " جنگ کے موقع پر چونکہ تمام اختیارات لامحالہ، سالارِ فوج کے سپرد کرنے پڑتے تھے لہٰذا وہ سیاسی طاقت کا مرکز بن جاتا تھا۔ سو میری زبان میں اُس شخص کو لُو گَل باندہ یعنی بڑا آدمی کہتے تھے۔ ابتدا میں یہ عہدہ عارضی ہوتا تھا اور جنگ کے ہنگامی حالات گزر جانے پر تمام اختیارات مجلس شوریٰ کو منتقل کردیے جاتے تھے۔

مگر ہنگامی حالات کے خاتمے کا فیصلہ لوگل باندہ ہی کرتا تھا چنانچہ ہنگامی حالات رفتہ رفتہ عارضی کے بجائے مستقل ہونے لگے کیونکہ لوگل باندہ کا فائدہ اسی میں تھا۔ بالآخر فوجی طاقت کے مالک ریاست کے سربراہ بن گئے۔"ہزاروں برس پرانے سومیری سماج کے بارے میں پڑھتے ہوئے کیا ہمیں وہ پاکستانی فوجی آمر یاد نہیں آتے جو آخرکار سربراہ مملکت بن بیٹھنے کو اپنا پیدائشی اور آسمانی حق سمجھنے لگے اورکسی نہ کسی رنگ میں یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

یہ سبط حسن تھے جنھوں نے پاکستان کی حکمران اشرافیہ اور اس کے معاون و مدد گار مذہبی حلقے کے سامنے آواز حق بلند کی۔ انھوں نے تھیوکریسی، سیکولر ازم اور اسلامی ریاست پر 70اور 80کی ابتدائی برسوں میں جم کر لکھا۔ 1986میں اپنی رخصت سے پہلے انھوں نے Battle of Ideas تحریر کی۔ ایک ایسے زمانے میں جب یوم شوکت اسلام منایا جا رہا تھا اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ سرکاری سرپرستی میں آزاد خیالات و افکارکا گلا گھونٹ دیا جائے گا، سبط حسن نے نہایت دبنگ آواز میں وہ بات کہی جو پاکستانیوں کے جمہوری اور انسانی حق کی طلبگار تھی۔ نوید فکر کی تمہید میں انھوں نے لکھا کہ " قلم کا جواب زبانِ قلم سے دینا" ارباب فہم کا مسلک ہے، اس لیے کہ خیالات کو بہتر خیالات ہی سے شکست دی جاسکتی ہے اور گمراہیاں، راستی کی راہ دکھانے سے ہی رک سکتی ہیں۔ نہ کہ احتساب کی آہنی دیواروں سے۔"

سبط حسن خوش نصیب تھے کہ وہ ایک ایسے زمانے میں اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے جب پاکستانی سماج میں رواداری کی پرچھائیاں موجود تھیں اور لوگ مذہبی انتہا پسندی کے سب سے آسان ہتھیارسے قتل نہیں ہورہے تھے۔ آج ہمارے سامنے مشال خان اور دوسری مثالیں موجود ہیں۔ جنھیں راستے سے ہٹانے کے لیے مختلف نوعیت کے بہانے تراشے گئے۔

سبط حسن نے1982میں لکھا تھا کہ " جذباتیت، تنگ نظری اور نارواداری ذہنوں پر اس قدر حاوی ہے کہ نئی فکر کی تازہ ہوائیں ادھر کا رخ کرتے ڈرتی ہیں۔ یہ روش اگر جلد نہ بدلی گئی تو ہم اپنی نئی نسلوں کو شاہ دولہ کے چوہوں کے سوا تحفے میں کچھ نہیں دے سکیں گے۔"

(جاری ہے)

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.