سبطے صاحب خیالات اور ثقافت (کلچر) کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھتے تھے اور یہ بات برملا کہتے تھے کہ غورو فکرکے بغیرکوئی تہذیب اورکوئی ثقافت جنم نہیں لے سکتی۔
وہ انسان پر قبائلی، جاگیردارانہ اور صنعتی ادوارکے اثرات پرگفتگوکرتے ہیں اور یہ اہم سوال اٹھاتے ہیں کہ کوئی سماج کسی خاص زمانے میں کیوں عظیم دانشور، سائنسدان، منصف اور فنکار پیدا کرسکا اور پھرکیوں اچانک وہ سماج ان تمام خصوصیات سے محروم ہوگیا۔ اس سلسلے میں وہ آٹھویں صدی سے گیارہویں صدی کے درخشاں مسلم سماج کی مثال دیتے ہیں۔
اس تابانی میں اصل کردار ایرانی دانشوروں، شاعروں اور فلسفیوں کا تھا۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ ابن رشد کی کتابوں کوکفر و الحاد کا پلندا قرار دے کر انھیں جلا دینے والے اس بات پر غور نہیں کرتے کہ یہ اسی کی کتابیں تھیں جنھیں اس کے یہودی شاگرد اپنی آستینوں میں چھپا کر اٹلی لے گئے۔ وہاں یہ کتابیں ترجمہ ہوئیں اور ابن رشد کے خیالات سے یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا سورج طلوع ہوا۔ ابن رشد اور دوسرے فلسفیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک نے مسلم سماج میں دوسروں کو خاموش رہنے پر مجبور رکھا اور جس کے بعد اندھیرا چھا گیا۔
پاکستان میں کلچرکی بحث دہائیوں سے چل رہی ہے۔ پاکستانی کلچرکے نام سے کچھ دانشوروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان اپنا ایک مخصوص کلچر رکھتا ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مختلف قومیتوں کا مجموعہ ہے، ان کی اپنی زبانیں ہیں۔ ان کا اپنا کلچر ہے جو صدیوں اوربعض حالات میں ہزاروں برس سے چلا آرہا ہے۔
اس لیے کسی ایک زبان یا کلچر کو تمام پاکستانیوں پر مسلط کرنا، ان کی حق تلفی اور ان قومیتوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ خطہ شعروادب، فنون لطیفہ، تعمیرات، رقص و موسیقی اور مصوری میں ایک شاندار ماضی رکھتاہے۔
انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ ماضی کے ان تمام جواہرکو اپنایا جائے اورکسی کوکسی پر فضلیت حاصل نہ ہو۔ ہم مادھو لال حسین، وارث شاہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی، بابا فرید، لال شہباز قلندر، رحمان بابا، خواجہ میر درد، میر تقی، غالب، نظیر اکبر آبادی اور بے شمار دوسرے شعرا اور صوفیوں کے کلام کا خزانہ رکھتے ہیں جو تمام انسانیت کا سرمایہ ہیں۔
اس میں ہندو مسلم کی تخصیص نہیں۔ مندر مسجد الگ طرز تعمیر رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ انسانوں کی مقدس عبادت گاہیں ہیں۔ ہمارے صوفیوں اور بھگتی تحریک کے ماننے والوں نے ہزاروں برس پر پھیلی ہوئی ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جو آج بھی ہمارے لاکھوں کروڑوں شہریوں کے سینوں میں اپنی جڑیں رکھتی ہے۔ 1857کے بارے میں جب یہ کہا گیا کہ یہ آزادی حاصل کرنے کی کوشش ضرور تھی لیکن اس لیے کامیاب نہ ہوسکی کہ یہ دراصل قدیم و جدید کے درمیان آویزش تھی۔
برصغیر میں راجا رام موہن رائے، غالب، ٹیگور اور سرسید نے جدید طرز حیات کی طرف توجہ کی اور نئے خیالات اور رجحانات سے استفادہ کیا۔ یہ ہمارے وہ دانشور تھے جنہوں نے اپنی قدیم تہذیب کی شاندار روایات کے ساتھ ساتھ جدید خیالات کی آمیزش کو برصغیر میں رہنے والوں کے لیے نسخۂ شفا سمجھا۔ انھوں نے جدید تعلیم اور حکومت کرنے کے جدید انتظامی طریقوں کو اپنانے پر زور دیا۔ بوڑھے غالب نے نوجوان سرسیدکی "آئین اکبری" پر فارسی میں جو تقریظ لکھی، وہ ہمارے یہاں جدید و قدیم کی آویزش کی ایک شاندار مثال ہے۔
سبطے صاحب نے غالب کی روشن خیالی اور جدید معاملات کے بارے میں ان کی فراخ دلی کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ غالب، سید احمد خاں کو نئے خیالات کے بارے میں سوچنے اور اپنے قدیم طرز فکر کو بدلنے کا سبب بنے۔" آئین اکبری" کا ترجمہ کرنے اور غالب کی تنقید سے ناراض ہونے والے سید احمد خان برصغیر کے سب سے بڑے ریفارمر بن کر سامنے آئے اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کے فروغ کا سہرا ان کے سر ہے۔
سطبے صاحب ایک ایسے کمیونسٹ تھے جس کا دامن دل بہتوں کے لیے کشادہ تھا۔ مولانا مجاہد الحسینی اور وہ کچھ دن لاہور سینٹر جیل میں ایک ساتھ اسیر رہے۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے مولانا مجاہد الحسینی لکھتے ہیں کہ سبطے صاحب نے ان سے ابتدائی عربی کی تعلیم حاصل کی اور ان سے انگریزی کے سبق لیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ لاہور جیل سے رہائی کے بعد سید سبط حسن مطبوعات پاکستان ٹائمز و امروز کے نئے ہفت روزہ لیل و نہار کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے تھے، جب حکومت نے ادارے کی تمام مطبوعات جبراً بند کر دیں تو سبط حسن صاحب ایک انشورنس کمپنی کے ڈائریکٹرکی حیثیت سے کام کرنے لگے، ایک نامور ادیب صحافی اور دانشور کے لیے انشورنس کا شعبہ کرب ناک تھا، معاشی تنگ دامانی نے قلب و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا کہ صاحبِ قلم، صاحب فراش ہوگیا۔
ان کی ناسازی طبع کی خبر سن کر مَیں نے حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی خدمت میں اس کا ذکر کیا تو سنتے ہی فرمایا:"جیل کے ساتھی سبط حسن" کی تیمار داری کے لیے ابھی جانا چاہیے۔ حاجی صاحب کے فرزند حاجی احمد کی گاڑی میں ہماری روانگی ہوئی۔ شاہ صاحب کے فرزند علامہ سید ابوذر بخاری بھی ہمراہ تھے۔ راستے میں شاہ صاحب نے سبط حسن کی رہائش گاہ کی بابت معلوم کیا تو مَیں نے اْس کے محل و وقوع کی بابت معلومات دیتے ہوئے عرض کیا… میکلوڈ روڈ پر واقع علامہ اقبال کی سابقہ رہائش گاہ کی گلی میں دفتر روزنامہ "کوہستان" کے اوپر واقع کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں سبط حسن رہائش پذیر ہیں۔
یہ سن کر شاہ صاحب نے خاموشی اختیارکی، اتنے میں ہم دفترکوہستان کے دروازے پر پہنچ گئے تو دفتر کے عملے نے شاہ صاحب کو دیکھتے ہی والہانہ جذبے اور عقیدت و احترام کے ساتھ شاہ صاحب کا استقبال کیا۔ اپنے دفتر کے کمرے سے نسیم حجازی صاحب ایڈیٹر کوہستان بھی آگئے۔ انھوں نے سمجھا کہ شاہ صاحب دفتر کوہستان دیکھنے آئے ہیں۔
اس لیے ساتھ ہوکر پورے دفترکا مشاہدہ کرایا۔ آخر میں شاہ صاحب نے میری جانب متوجہ ہو کر اشارتاً سبط حسن کی بابت دریافت کیا۔ مَیں نے اوپری منزل کی جانب اشارہ کیا تو نسیم حجازی صاحب فوراً بول پڑے۔ اوپر توکمیونسٹ پارٹی کا دفترہے…شاہ صاحب! ہاں مجھے معلوم ہے، مجھے مکان سے نہیں، مکین سے غرض ہے۔ مکین اگر جہنم کے کنارے پر بھی ہوگا، تو مَیں اسے بچانے کی کوشش کروں گا"۔ پھر ہم شاہ صاحب کو سہارا دیتے ہوئے اوپر کی منزل پر لے گئے۔
سید سبط حسن بیماری اور ضعف کے باعث مضمحل سامنے چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ شاہ صاحب کو اچانک اپنے دفتر میں دیکھ کر والہانہ انداز میں اٹھ کر شاہ صاحب کا مودبانہ خیر مقدم کرتے ہوئے کہا: شاہ صاحب! آپ نے اس بڑھاپے اور ضعف کی حالت میں کیوں زحمت اٹھائی اور میری جانب متوجہ ہو کرکہا، آپ مجھے حکم دیتے ہم شاہ صاحب کی خدمت میں حاضری کی سعادت پاتے۔
میں نے سبطے صاحب کو پروفیسرکرار حسین کے سامنے فرش لشت پر دو زانو بیٹھے دیکھا ہے۔ یہ 1986 کی بات ہے جب وہ انھیں کراچی میں ہونے والی گولڈن جوبلی کانفرنس میں شرکت کے لیے دعوت دینے گئے تھے۔
سطبے حسن اپنی تہذیب اور اپنے تمدن کے شیدا تھے۔ وہ اس بات کی خواہش رکھتے تھے کہ ہم اپنی تہذیبی روایات سے پہلو تہی نہ کریں، ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جدید و قدیم اور مشرق و مغرب کی آمیزش سے ایک نئی دنیا تخلیق کریں جو زیادہ جمہوری، انسان دوست، رنگارنگ اور حسین ہو۔ وہ جاچکے ہیں لیکن اپنے اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے انھوں نے اپنے قلم سے ایسی روشن کتابیں لکھیں جنہوں نے بلوچستان، سندھ، پنجاب اور پشتون علاقوں کے نوجوانوں کو متاثرکیا۔
آج کچھ لوگوں کی سیاہ قلبی کے ساتھ ہی اگر نوجوانوں کے ایک بڑے طبقے میں بیداری پائی جاتی ہے اور وہ زندگی اور اس کے معاملات کو معروضی انداز میں دیکھتے ہیں تو یہ سبط حسن، علی عباس جلالپوری، حمزہ علوی، ڈاکٹر مبارک علی اور بعض دوسروں کی تحریروں کا کمال ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی ریاست عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں فرقوں، مسلکوں اور طبقات میں تقسیم کرنے پر تلی ہوئی ہو، جہاں ہر طرف آگ اور بارود کا کھیل ہو رہا ہو، وہاں قلم اپنے آپ کو شاہ جہاں ثابت کرے، یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ سبطے صاحب اور ان کے دوسرے ہم خیال دانشوروں اور لکھاریوں نے پاکستانی سماج کو سنوارنے اور اس کے ذہن میں چبھے ہوئے کانٹے نکالنے میں جوکردار ادا کیا ہے، وہ قابل صد ستائش ہے۔