آج سے 90 برس پہلے یہ 10 اپریل 1931 کا دن تھا جب اس نے بوسٹن کے اسپتال میں آخری سانس لی۔ اس کا نام خلیل جبران تھا، اس سے میری ملاقات اس وقت ہوئی جب میں آٹھویں میں پڑھتی تھی اور بہترین نثر نگارکے طور پر مجھے ایک کتاب انعام میں ملی۔
یہ خلیل جبران کی " اشک و تبسم" تھی۔ میں نے اسے ایک مرتبہ اور پھر دوسری مرتبہ پڑھا اور اس شخص کی تحریرکی اسیر ہوگئی جو میری پیدائش سے پہلے اس دنیا سے جا چکا تھا، پھر میں نے اسکول لائبریری سے اس کی جتنی کتابیں مل سکتی تھیں، وہ لے کر پڑھیں اور جب ان سے بھی سیرابی نہ ہوئی تو پرانی کتابوں کے ٹھیلوں پر ان کی تلاش میں سرگرداں رہی۔
کچھوے اور خرگوش کی کہانی نوعمری میں سنی تھی۔ جبران نے بتایا کہ کچھوے راستوں کو خرگوش سے زیادہ سمجھتے ہیں، مجھے جبران کی بات پر یقین آگیا۔ نہ سمجھتے تو ایک طویل دوڑ میں خرگوش کو شکست کیسے دے سکتے تھے۔ اسی طرح گھر میں یہ بات بار بار سنی تھی کہ کم بولنے والا زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے۔ جبران کا کہنا تھا کہ جو آدمی جتنا ہی زیادہ بولتا ہے، اتنا ہی کم سمجھ ہوتا ہے۔ اس نے لکھا جو شخص تمہاری خوشیوں میں شریک ہوتا ہے لیکن تکالیف میں ساتھ نہیں دیتا، وہ جنت کے سات دروں میں سے ایک کی کنجی کھو بیٹھا ہے۔ اس نے کیسی کمال باتیں لکھیں۔ سخاوت یہ ہے کہ اپنی استطاعت سے زیادہ دو اور استغنا یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے کم لو۔
جبران، لبنان کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا، غربت ہرگاؤں کے گھر میں بستی تھی۔ اس کے یہاں غربت کا کچھ زیادہ ہی ڈیرا بسیرا تھا اورکیوں نہ ہوتا کہ اس کے باپ کو اپنے گھر والوں سے زیادہ قمار بازی سے محبت تھی، شراب کا رسیا تھا اسی لیے اس کی آمدنی گھر کے بجائے شراب خانے کے مالک اور جوا کھیلنے والوں کی جیب کا رخ کرتی۔ اس کی ماں اپنے بچوں سے بے اندازہ محبت میں گرفتار تھی۔ وہ گاؤں والوں کے کپڑے سیتی، ان کے دوسرے چھوٹے موٹے کام کرتی اور کسی طرح گزرگزران کرتی۔
انیسویں صدی کا وہ آخری زمانہ لبنان میں رہنے والے میرونی عیسائیوں کے لیے سزا سے کم نہ تھا۔ ایک طرف سلطنت عثمانیہ تھی جس نے دروزوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ یہی وہ نا انصافیاں تھیں جنھوں نے بے شمار میرونی عیسائیوں کو مجبورکیا کہ وہ گروہ درگروہ ترک وطن کریں اور دور دراز علاقوں میں جا بسیں۔
جبران کی ماں کاملہ اپنی غربت، بچوں کی محرمیوں اور شوہرکی نااہلیوں سے تنگ تھی کہ اسی زمانے میں اس کے شوہر نے غبن کیا اور سارے گاؤں میں کامل کا سر شرم سے جھک گیا۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ اسے بھی لبنان چھوڑکر نئی دنیا کی تلاش میں نکلناچاہیے۔ سو اپنے بچوں اور بعض رشتہ داروں کے ساتھ اس نے نئی دنیا کا رخ کیا، یہ نئی دنیا "امریکا" تھا۔ جہاں کے ساحلوں پر روزانہ تارکین وطن کے سیکڑوں افراد اتر رہے تھے۔
کاملہ نے بوسٹن میں جبران کو ایک اسکول میں داخل کرایا اور خود گلی گلی پھیرے لگا کر نفیس بیلیں اور کڑھائی کیے ہوئے گلے فروخت کرنے لگیں۔ شام کے بعد وہ سلائی مشین پر جھک جاتیں اور مختصر حال تارکین وطن کے کپڑے سیتیں۔ یہی کام جبران کی دو بہنوں ماریانہ اور سلطانہ نے بھی اختیارکیا۔ ادھر جبران اپنی زندگی کی راہ تلاش کر رہا تھا۔
اس کے ماں کاملہ نے بچپن سے ہی اسے یونانی اور عبرانی کہانیاں سنائی تھیں جنھوں نے اس کے ذہن کو شاعرانہ اور فلسفیانہ رنگ دے دیا تھا۔ اسے نو عمری سے نقاشی اور مصوری کا شوق تھا۔ نو عمری میں اسے کاغذ نہ ملتا تو وہ ماں کی مہیا کی ہوئی رنگین پنسلوں یاکوئلے کے ٹکڑوں سے دیواروں پر نقش و نگار بناتا۔ برف گررہی ہوتی تو وہ اس پر نقاشی کرنے لگتا۔ امریکا پہنچا تو اس کے اس شوق کو مہمیز ملی اور اس نے جی جان سے نقش بنائے۔ 1897 میں جب وہ پندرہ برس کا تھا تو اس کے بنائے ہوئے ایک نقش کو رباعیات عمر خیام کے سر ورق کے لیے منتخب کرلیا گیا یہ اس کی زندگی کا اہم واقعہ تھا اور اس نے مصوری کی دنیا میں اس کے لیے در کھول دیا۔
ہم جنھیں بشیر ہندی اور بعض دوسرے ادیبوں کی وساطت سے اس کی زندگی کے بارے میں جاننے کا موقع ملا، وہ اس کے پندرہ بیس نقش یا مصوری کے نمونوں سے واقف ہیں، جب کہ درحقیقت اس کے لگ بھگ 700 نقش اور روغنی تصویریں محفوظ ہیں۔
عربی اس کی مادری زبان تھی لیکن کاملہ نے اس کے ایام طفلی سے جبران کو فرانسیسی بھی سکھائی تھی۔ وہ امریکا پہنچا تو عربی اور فرانسیسی کے ساتھ اس نے انگریزی سیکھی۔ لکھنا شروع کیا تو ابتدا عربی سے کی لیکن جلد ہی وہ انگریزی اور فرانسیسی میں بھی لکھنے لگا اور یہیں سے اس کے لیے کامیابی کے دروازے کھلتے چلے گئے۔
اسے اپنے وطن سے گہری محبت تھی۔ چند برسوں کے لیے وہ لبنان آیا تو اس نے فادر یوسف حداد کی زیر نگرانی عربی زبان کے رموز ونکات کی تحصیل اس مدرسے سے کی۔ جسے مدرستہ الحکمت کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اس نے کلیلہ ودمنہ، توریت اور مقدمہ ابن خلدون کا مطالعہ کیا۔ اس کا مقصد عربی زبان و ادب کی نزاکتوں سے آگہی حاصل کرنا تھا۔ جبران نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ بھی کیا۔ عیسائیت، اسلام، بودھ مت، یہودیت، زرتشت، ہندومت اورکنفیوشس کے خیالات کی گہرائیوں میں اتر کر بھی دیکھا۔
جبران نے "النبی" لکھی تو انگریزی دنیا میں اس کی دھوم مچ گئی۔ 100سے زیادہ زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ ہوا اور اسے تقریباً ایک الوہی کتاب کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ یہ اس کی شہرت کا نقطہ عروج تھا۔ اردو میں اس کی کئی کتابوں کے ترجمے بشیر ہندی نے کیے۔ اس کی زندگی کا قصہ بھی لکھا اور ایک عرصے تک وہ ہمارے نوجوانوں میں مقبول و محبوب رہا۔ کچھ عرصہ پہلے حیدر جاوید سید نے اس کی تحریروں کی کلیات مرتب کی جو شایع ہوکر ہاتھوں ہاتھ بکی۔
رابرٹ فسک وہ مغربی کالم نگار اور دانشور جس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ مشرقِ وسطیٰ کی خوں ریزی کو دیکھتے اور لکھتے ہوئے گزارا، جبران کا شیدائی تھا۔ لبنان، فلسطین اور اسرائیل کے مناقشے پر اس کی تحریروں کا مجموعہ شایع ہوا توفسک نے اس کا عنوان Pity the Nation رکھا۔ یہ جبران کی تحریر کا ایک پیرا گراف ہے جو اس نے اپنی کتاب کی ابتدا میں لکھا۔ جبران نے لکھا ہے:
"میرے دوستو اور میرے ہمسفرو! اس قوم کی حالت کس قدر قابل رحم ہے جو اعتقادات سے بھری ہوئی ہو لیکن مذہب سے خالی ہو۔ اس قوم کی حالت کس قدر قابل رحم ہے جو وہ کپڑے پہنتی ہو جو اس نے اپنے ہاتھوں سے نہیں بنائے۔ ایسی روٹی کھاتی ہے جس کی فصل اس نے اپنے ہاتھوں سے نہیں کاٹی۔ ایسا مشروب پیتی ہے جو اس کی اپنی انگورکی بیلوں سے کشید نہیں کیا گیا۔"
"اس قوم کی حالت کس قدر قابل رحم ہے جو ایک فسادی انسان کو منبع فیض خیال کرتی ہے…"
"اس قوم کی حالت کس قدر قابل رحم ہے جو ایک جذبے سے خواب میں تو نفرت کرتی ہے لیکن بیداری کے وقت اس کے آگے سر جھکا دیتی ہے۔"
"اس قوم کی حالت کس قدر قابل رحم ہے جس کی آواز جنازے کے جلوسوں کے سوا کہیں بلند نہیں ہوتی، اپنے اسلاف کے اجڑے ہوئے ویرانوں کے سوا کہیں اور فخر نہیں کرتی اور جب تک اس کی گردنیں تیز دھار تلوار کے نیچے نہ آئیں۔ ان میں بغاوت کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔"
" اس قوم کی حالت کس قدر قابل رحم ہے جس کا سیاست دان لومڑی کی طرح مکار ہے اور اس کا فلسفی شعبدہ باز کی طرح ہے اور جس کا آرٹ صرف منہ چڑانا اور نقل اتارنا ہے۔"
" اس قوم کی حالت کس قدر قابل رحم ہے جو اپنے نئے بادشاہ کا باجوں کے شور میں استقبال کرتی ہے اور اس پر آوازے کس کر اسے الوداع کہتی ہے تاکہ وہ دوسرے بادشاہ کا شہنائیوں کے ساتھ استقبال کر سکے۔"
"اس قوم کی حالت کس قدر قابل رحم ہے کہ جس کے مدبر معمر ہونے کے باوجود بے زبان ہیں اور جس کے طاقتور اور شہ زور جوان ابھی تک گہوارے میں ہیں۔"
"اس قوم کی حالت کس قدر قابل رحم ہے جو باہمی نفاق کے باعث کئی حصوں میں تقسیم ہوچکی ہو"
جبران کی اس تحریر کے آئینے میں کیا ہمیں اپنا عکس نظر نہیں آتا؟
آتا تو ہے لیکن ہم اس سے نگاہیں چراتے ہیں اس لیے کہ فی الحال عافیت اسی میں ہے۔