کچھ دن پہلے تک اپوزیشن وہ ہنگامہ مچا رہی تھی کہ ایسا احساس ہونے لگتا تھا کہ حکومت کا دھڑن تختہ ہونے والا ہے خاص طور پر آتشیں تقاریر سے اندازہ ہوتا تھا کہ اب حکومت کے چل چلاؤ کا وقت آگیا ہے لیکن سارا طوفان تھم گیا اور حکومت اور مضبوط ہوگئی۔
اپوزیشن کے الزامات کے جواب میں ایک آدھ بیان حکومت کے کسی وزیر کی جانب سے آجاتا تھا بس اللہ اللہ خیر صلہ۔ اصل میں ہماری اپوزیشن کے اراکین یہ بھول گئے تھے کہ 10 سال تک جاری رہنے والی حکومتی پالیسی نے ملک کے سنجیدہ حلقوں میں اضطراب پیدا کردیا تھا اور سنجیدہ حلقے کارروائی میں بہت سنجیدہ ہوگئے تھے اب ملک کے تمام انسان اور ملک دوست عناصر کی یہ شدید خواہش تھی کہ بہت ہوچکی اب کام ہونا چاہیے وہ بھی ٹھوس کام ہونا چاہیے۔
سو عمران خان نے ملک بھر میں ترقیاتی کاموں کا جال پھیلا دیا۔ ہمارے ملک میں پانی کی قلت عشروں سے ہے ماضی کی کسی حکومت نے اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔ عمران خان نے اس سلسلے میں ٹھوس قدم اٹھاتے ہوئے 10 ڈیم بنانے کی ابتدا کردی اور اس پر کام زور شور سے ہو رہا ہے اس طرح جہاں جہاں جن اقدامات کی ضرورت تھی وہاں سنجیدگی سے اقدامات کا سلسلہ شروع کردیا گیا اور یہ کام دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ حقیقت میں شروع کر دیے گئے، عوام ان کاموں سے خوش ہیں۔
البتہ ایک کام ایسا ہے جس سے عوام میں بے چینی ہے اور وہ کام ہے مہنگائی۔ بلاشبہ ملک میں مہنگائی کا گراف آسمان پر پہنچا ہوا ہے لیکن یہ مہنگائی اصل نہیں ہے بلکہ سابقہ حکومتوں کے پروردہ تاجروں کی لائی ہوئی ہے۔ اس جعلی مہنگائی کا مقصد عوام میں بے چینی پھیلا کر عوام کو سڑکوں پر لانا تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام اس سازش کو سمجھ گئے ہیں اور اطمینان سے مہنگائی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
اے بسا آرزو کہ خاک شد ہماری اپوزیشن کا یہ وار بھی خالی گیا اب صرف حکومت پر الزامی بیانات پر گزارا ہو رہا ہے۔ بیانات تو آتے رہتے ہیں کہ اب اپوزیشن کے پاس سوائے بیان بازی کے کچھ نہیں، اپوزیشن ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے جس کی وجہ سے مقررین بھی چپ سادھ کر بیٹھے ہیں۔
اصل میں اب وہ کام غالباً شروع ہونے جا رہا ہے جسے احتساب کہا جاتا ہے اور وہ بھی بہت سنجیدہ طریقے سے۔ 10 سال تک ملک میں جو کچھ کیا گیا تھا اب اس کے حساب کا وقت آگیا ہے اور اس حقیقت سے اپوزیشن کے اکابرین اچھی طرح واقف ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے کچھ بول نہیں رہے ہیں۔ کیونکہ اس حوالے سے بڑی سنجیدگی سے کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے اگر اس کام کی ابتدا ہوتی ہے تو عوام خوش ہوں گے۔
اب تک لوٹ مار کی اربوں کی دولت برآمد ہوچکی ہے اور ابھی مزید دولت برآمد ہونی ہے۔ نیب اس حوالے سے بہترین کام کر رہا ہے اس لیے اشرافیہ نیب کی سخت مخالف ہے اور اسے ختم کرنا چاہتی ہے اس حوالے سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور نیب کو جمہوریت دشمن قرار دیا جا رہا ہے لیکن لگتا ہے کہ نیب کو گائیڈ کرنے والے ان ہتھیاروں سے پہلے ہی سے واقف ہیں اور اس کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور اربوں روپے برآمد کر رہے ہیں۔ اس کارروائی سے اشرافیہ سخت بے چین ہے اور اسے روکنے کے لیے ہر جتن کر رہی ہے۔ ایک بات جو ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان لٹیروں کے نام میڈیا میں آنے چاہئیں اور کسی قیمت پر احتساب نہیں رکنا چاہیے۔
معلوم ہوا ہے کہ احتساب روکنے کے لیے اندر اور باہر سے بہت بڑی سفارشیں آ رہی ہیں کہ احتساب کو روک دیا جائے لیکن حالات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ احتساب رکے گا نہیں۔ یہ بات اشرافیہ بھی جانتی ہے اور عوام احتساب کے بے چینی سے منتظر ہیں۔ خدانخواستہ اگر احتساب میں کچھ رکاوٹ پیش آئی تو عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اگر ایسا ہوا تو پھر احتساب کو روکنا ممکن ہی نہیں رہے گا۔ یہ بات اشرافیہ بھی جانتی ہے اور بعض افراد کو جمہوریت کے نام پر استعمال کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے لیکن اب بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔
اپوزیشن کا سارا زور عوام کو ورغلانے میں لگا ہوا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ عوام بھوکی مر رہی ہے لاکھوں عوام بے روزگاری کا شکار ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت ہوتی تو بھوکے عوام سڑکوں پر آ جاتے لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سارا پروپیگنڈا جھوٹا ہے اور جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ لٹیروں کی بہت بڑی تعداد اب بھی محفوظ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر لٹیرے بچ گئے تو احتساب کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا۔ لٹیری کلاس اگر اس سنجیدہ مرحلے میں بھی بچ گئی تو آیندہ یہ اتنی طاقتور ہو جائے گی کہ اس کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا اس کام کو ادھورا چھوڑنے کا مطلب اشرافیہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا ہوگا۔
72 سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے اس اثنا میں ابتدا کا کچھ وقت شرافت سے گزرا اور پھر جو اشرافیہ نے اقتدار سنبھالا پھر لوٹ مار کا وہ کلچر اس قدر مضبوط ہو گیا کہ آج جان کو اٹک گیا ہے۔ جو طاقتیں اس ملک کو کرپشن سے پاک بنانا چاہتی ہیں ان کے لیے یہ ٹائم آئیڈیل ہے اس وقت لوہا گرم ہے جس طرح چاہے موڑ لو۔ اگر ایک بار اس کو موقعہ مل گیا تو پھر اس کا قابو میں آنا بہت مشکل ہوگا۔
عوام کی نظریں بھی اس احتساب کے انجام پر لگی ہوئی ہیں اگر مکمل احتساب ہوتا ہے تو عوام بھی مطمئن ہو جائیں گے اگر احتساب ادھورا ہوتا ہے تو عوام میں بے چینی بڑھے گی اور ممکن ہے عوام آگے بڑھ کر وہ کام سنبھال لیں جو نہیں ہو رہا ہے۔