Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ashrafia Aur Iqtidar

Ashrafia Aur Iqtidar

13 دسمبر جس کا پروپیگنڈا اتنا کیا گیا تھا کہ عام آدمی یہ سمجھ کر خوفزدہ ہورہا تھا کہ شاید کوئی طوفان آنے والا ہے۔ اس تاریخ کو مینار پاکستان پر پی ڈی ایم کا ایک جلسہ ہونے والا تھا جس کی تیاریاں بہت پہلے سے ہو رہی تھیں، اس جلسے کی اصل محرک میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز تھیں، یہ ان ہی کی کاوشیں تھیں کہ لاہور میں ایک عدد جلسے کا اہتمام کیا گیا۔

بہرحال اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ پروپیگنڈا یہ کیا گیا تھا کہ یہ جلسہ تاریخی ہوگا جس میں تل رکھنے کی جگہ نہیں ملے گی لیکن یہ سننے میں آ رہا ہے کہ مطلوبہ ہدف پورا نہ ہو سکا۔

بہرحال جلسہ ہو گیا، جلسے کے آرگنائزر کو یہ خدشہ تھا کہ حکومت یہ جلسہ ہونے نہیں دے گی اور روڑے اٹکائے گی، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ انتہائی پر امن طریقے سے جلسہ ہو گیا۔ سیاستدانوں کا پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہوتا لیکن اہل سیاست بہرحال اتنا جانتے ہیں کہ تہذیب نام کی کوئی چیز ہوتی ہے اور سیاستدان تہذیب کے اندر رہتے ہوئے تقاریر کرتے ہیں، سیاسی اختلافات خواہ کتنے شدید ہوں تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا لیکن میرے خیال میں اس جلسے میں ایسا نہ ہو سکا۔

اب ذرا اس جلسے کے مقاصد پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ اتنی محنت سے جو جلسہ کیا گیا، اس کے مقاصد کیا تھے۔ 2018 میں عام انتخابات ہوئے جن میں تحریک انصاف کوکامیابی ملی، ہماری الیکشن روایات کے مطابق ان انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے جیساکہ ہر عام انتخابات میں ہوتا ہے۔ چونکہ ہارنے والے بھی طاقتور سیاستدان تھے سو اس مسئلے کو ایک بڑا ایشو بنایا گیا۔

اس جلسے کا بنیادی موضوع بھی یہی تھا۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری سیاست میں انتخابی بدعنوانی ایک ناگزیر حصہ بن گئی ہے لہٰذا انتخابی بد عنوانی کے الزامات عام ہیں۔ تحریک انصاف کوئی فرشتوں کی جماعت نہیں۔ ہو سکتا ہے (ن) لیگ کی طرف سے لگائے گئے دھاندلی کے الزامات میں کچھ صداقت ہو۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انتخابی بدعنوانی کو ایشو بنا کر نئے انتخابات کرانے کے مطالبے پر اتنے شدید جذبات کا اظہار کیا گیا ہو اور اسے ایک مرکزی مسئلہ بنایا گیا ہو۔

ہماری جمہوریت شہزادوں، شہزادیوں سے بھری ہوئی ہے جمہوریت کا نام لینے والے کو یہ کھلا تضاد نظر نہیں آتا کہ ہمارے ملک میں سرے سے جمہوریت نام کی کوئی چیز ہی نہیں بلکہ خاندانی حکمرانیوں کا سلسلہ جاری ہے ہر بورژوا یعنی اشرافیائی پارٹی میں شہزادوں اور شہزادیوں کی بھرمار ہے۔ یہ بات اب اتنی گہری ہوگئی ہے کہ آیندہ کئی نسلوں تک اس ملک پر شاہوں کا ہی راج رہے گا اور یہی تانا شاہی جمہوریت چلتی رہے گی۔ ایک صاحب فرما رہے ہیں کہ ڈائیلاگ کا وقت گزر گیا اب انتخابات کا وقت آگیا ہے، جب کہ انتخابات میں ابھی ڈھائی برس کا وقت باقی ہے۔

نئے امیدوار کو اسمبلی میں پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ ہمارے اہل سیاست میں نئے امیدوار زیادہ ہیں اور وہ ایک ایک دن گن گن کر کاٹ رہے ہیں کہ اقتدار کی دلہن سے ان کا کب ملاپ ہوتا ہے۔ اس جلسے میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ جنوری 2021 میں لانگ مارچ کیا جائے گا جس کا مقصد حکومت کو ختم کرنا ہوگا۔ معلوم ہوا ہے کہ لانگ مارچ کے شرکا اپنے ساتھ اپنے استعفے بھی لے جائیں گے تاکہ حکومت کے کریا کرم میں رکاوٹ نہ ہو۔

اب آئیے، اس اصل مسئلہ کی طرف جس کی وجہ سے اتنا کھڑاک پھیلایا گیا ہے، حالیہ الیکشن سے پہلے اور بعد میں ہمارے سیاستدانوں پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے اپنے دور حکومت میں صرف لوٹ مارکا کام کیا اور وہ بھی اس قدر بھاری پیمانے پرکہ ہر ایلیٹ ارب پتی بن گیا ہے۔ عمران خان کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ لوٹی ہوئی اربوں کی رقم واپس مانگ رہا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ پہلے اربوں کی رقم واپس کرو پھر آگے بات ہوگی۔ ادھر ہماری ایلیٹ کسی قیمت پر لوٹی ہوئی اربوں کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے برخلاف حکومت کو کسی نہ کسی بہانے ختم کرنے کے درپے ہے، یہ جو جلسے جلوس ہو رہے ہیں وہ اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔

ہماری اشرافیہ ہر قیمت پر لوٹی ہوئی اربوں کی رقم واپس کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس بھاری رقم کو ہضم کرنے کے لیے ہمارے شاہی خاندان اب لانگ مارچ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اگر کوئی آسمانی سلطانی نہ ہو تو یہ ممکنہ لانگ مارچ حکومت کو کھا جائے گا، ہمیں نہیں معلوم کہ عدلیہ سمیت کوئی ایسا ادارہ ہے جو ان کھلی ناانصافیوں کا ازالہ کرکے جمہوری سیٹ اپ کو بچا سکے۔