وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو اب کوئی رعایت نہیں ملے گی۔ کرپشن مقدمات کو ہر صورت منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
یہ باتیں وزیر اعظم نے پولیٹیکل کمیٹی کے اجلاس میں کہیں۔ ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قانون اور انصاف کی کوئی وقعت نہیں رہی۔ غریب آدمی بھلا قانون کو کیا توڑے گا البتہ امرا جب چاہتے ہیں قانون کو توڑتے ہی نہیں بلکہ قانون کی بے حرمتی بھی کرتے ہیں یہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے عشروں سے کھلے عام یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ حکومت کسی بلیک میلنگ میں نہیں آئے گی انھوں نے کہا کہ رضاکارانہ خدمات انجام دینے کا نوجوانوں میں کتنا جذبہ موجود ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ ہمارے ملک میں جو سیاسی ابتری، مایوسی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ملزموں کو پکڑا تو جاتا ہے لیکن انھیں منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاتا۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک چھوٹے نہیں بڑے بڑے کیسز میں مدعی اور ملزمان گل سڑ گئے لیکن ان کے کیسز منطقی انجام کو نہ پہنچے۔
ماضی اور ماضی قریب میں بڑے بڑے ملزمان کے کیسز منظر عام پر آئے اور گم ہو گئے اگر ان کیسوں کے بر وقت فیصلے ہوتے تو شاید ہمارے وزیر اعظم کو یہ کہنا نہیں پڑتا کہ "مقدمات منطقی انجام تک پہنچائے جائیں گے۔"
یہ مسئلہ کسی فرد واحد کا یا چند لوگوں کا نہیں بلکہ قوم کا اجتماعی مسئلہ ہے کہ ملزم کوئی ہو ایک مقررہ (کم سے کم) مدت کے اندر اندر فیصلہ ہو جانا چاہیے، لیکن ایسا ہوتا نہیں جس کے ایک دو سبب نہیں بلکہ بے شمار اسباب ہیں۔ جس میں اشرافیہ کا سب سے بڑا دخل ہے۔ ہمارے عام عدالتی سسٹم میں ضمانت حاصل کرنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن ہر کیس میں ایسا نہیں ہوتا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کو کام کرنے نہیں دینا چاہتی۔ میرے سامنے ٹی وی ہے اور پٹیاں چل رہی ہیں جس میں بتایا جا رہا ہے کہ اپوزیشن اپنی سیٹوں پر کھڑے ہوکر احتجاج کر رہی ہے اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑا رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ "گو نیازی گو" کے نعرے لگا کر ایوان کو مچھلی بازار بنا دیا گیا ہے۔ یہ ہے ہماری جمہوریت۔ اسمبلی ہال گو نیازی گو کے نعروں سے گونج رہا ہے اور اس کھیل کے ڈائریکٹر اپنے ڈرائنگ روموں میں آرام سے بیٹھیاسے دیکھ رہے ہیں۔
ہمارے ملک کی آبادی 22 کروڑ ہے اور گو نیازی گو کے نعرے لگانے والے اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑانے والے اتنی بڑی آبادی کے نمایندے ہیں۔ ساری دنیا پاکستان کے قانون ساز اداروں کی کارکردگی دیکھ رہی ہے اور ایسی جمہوریت پرحیران ہے۔
لگتا ہے اوپر سے اس قسم کیکارکردگی کی اجازت مل گئی ہے۔ یہ ڈرامہ کوئی نیا ڈرامہ نہیں ہمارے قانون ساز اداروں میں یہ بھی ہوا ہے کہ ممبران حضرات کو اٹھا کر اسمبلی ہال سے باہر پھینکا جاتا رہا ہے۔
یہ سارے کھیل اس وقت تک چلتے رہیں گے جب تک پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ ہماری اشرافیہ کی سائیکی یہ ہے کہ وہ صرف حکمرانی کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہے، سیاسی لیڈرشپ اس کا آبائی ملک ہے ہمارے ملک کے عوام ابھی تک شاہی حکمرانی کے دور سے ذہنی طور پر وابستہ ہیں ایک تو یہ ذہنیت عوامی جمہوریت کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے دوسرے خاندانی حکمرانی کا تصور عوام میں اس قدر مضبوط ہے کہ وہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بھی خاندانی حکمرانی کے کلچر سے اس طرح وابستہ ہیں کہ ایک مڈل کلاس کے لیڈر کو پسند نہیں کرتے۔
عمران خان کا تعلق ملک کی مڈل کلاس سے ہے اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک ایماندار اور عوام سے مخلص رہنما ہے اس کی کوشش یہ ہے کہ عوام کو آگے لائے۔
لیکن اشرافیہ ایک تیر سے کئی شکار کر رہی ہے۔ حکومت کو ہٹانا تو اس کا پہلا ٹارگٹ ہے اور وہ جو ہنگامے کر رہی ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ حکومت یکسوئی کے ساتھ عوامی مسائل حل نہ کر سکے۔
کیوں کہ پوری اشرافیہ کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ اگر عمران خان 5سال رہ گیا تو وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو اشرافیہ کو عمران خان سے جان چھڑانا مشکل ہو جائے گا یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جسے اشرافیہ نے اپنا ٹارگٹ بنایا ہوا ہے۔