پاکستان کے عوام ایک بار پھر سخت آزمائش سے گزر رہے ہیں، اگر وہ عقل وشعور سے کام نہ لیں تو ایک طویل اندھیرے میں ڈوب سکتے ہیں۔ ماضی کے مسترد سیاستدان عوام کے ہمدرد بن کر ان کے سامنے آ رہے ہیں اور اپنی دس سالہ لوٹ مارکو چھپانے کے لیے مہنگائی کا سہارا لے رہے ہیں، بلاشبہ ملک اس وقت ایک تاریخی مہنگائی سے گزر رہا ہے۔
عوام سخت پریشان ہیں اور سیاستدانوں کے کھیل زوروں پر ہیں۔ ہم نے بار بار عوام کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ آج جمہوریت اور مہنگائی کے نام پر اشرافیہ جو ڈرامہ کرنے جا رہی ہے اس کا واحد مقصد اقتدار کا حصول ہے۔ ایلیٹ جس منصوبہ بندی سے کام کر رہی ہے اگرحکومت نے اسے نہ سمجھا اور اسے روکنے کی منصوبہ بند کوشش نہ کی تو ڈر ہے کہ اپوزیشن ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور پھر دوبارہ ماضی کی ہی تاریخ دہرائی جائے گی۔ کوئٹہ کا جلسہ اسی کوشش کی ایک کڑی ہے۔
عوام اگر اس کوشش سے آگاہ نہ ہوئے اور ایلیٹ کی باتوں میں آگئے تو ملک ایک بار لوٹ مار کی زد میں آجائے گا اور آج ملکی معیشت میں جو بہتری آ رہی ہے وہ پھر ہاتھوں سے نکل جائے گی۔ اب یہ عوام کے شعور پر منحصر ہے کہ وہ ایلیٹ کی سیاست کو سمجھیں اور ان کے دھوکے میں نہ آئیں کیونکہ اگر ایلیٹ ایک بار پھر اقتدار میں آجائے تو برسوں تک ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔
ایلیٹ وزیراعظم عمران خان پر نااہلی اور نالائقی کا الزام لگا رہی ہے حالانکہ ان کی نااہلی کے باعث کرپشن پھیلی ہے۔ ایلیٹ آج عوام کو جس مہنگائی کا واسطہ دے کر ورغلا رہی ہے وہ ان کی پالیسیوں کی لائی ہوئی ہے۔
اپنے دور حکومت میں ایلیٹ نے 24 ہزار ارب کے قرض لے کر جس مہنگائی کو روک رکھا تھا آج عوام کے سروں پر مسلط مہنگائی اسی 24 ہزار ارب کے قرضوں کی مرہون منت ہے جو اپنے دس سالہ دور حکومت میں حاصل کیے تھے۔ اگر عمران خان کی جگہ کوئی اور جماعت اقتدار میں آجاتی تو شاید حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہو جاتے۔ وقت کا تقاضا یہ تھا کہ ملک میں کسی ایماندار حکومت کوکام کرنے کا موقعہ ملتا تاکہ ایسی حکومت کے برسر اقتدار آنے سے عوام کی توقع پوری ہوتی۔
ایلیٹ یعنی اشرافیہ نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح حکومت کی کرپشن کا کوئی کیس اس کے ہاتھ میں آئے لیکن وہ اس خواہش میں ناکام رہی۔ اب اس کے پاس حکومت کے خلاف کہنے کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں رہا کہ حکومت نالائق ہے، حکومت نالائق ہوسکتی ہے لیکن کرپٹ نہیں ہوسکتی کہ ملک میں کرپشن کی مہارت صرف ایلیٹ کے پاس ہے۔
سابقہ حکومتوں کے ہمارے سیاستدان اپنا زور لگا رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح حکومت کا پتہ صاف کریں۔ ایلیٹ نے بار بار کوشش کی کہ عوام کو سڑکوں پر لایا جائے لیکن دودھ کے جلے عوام اب چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پی رہے ہیں۔ یہی ایلیٹ کی بدقسمتی ہے کہ وہ عوام کے اعتبار سے محروم ہوگئی ہے اگر عوام کا ذرہ برابر اعتبار ایلیٹ کو حاصل ہوتا تو وہ مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر آکر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی لیکن ہزار کوششوں کے باوجود عوام سڑکوں پر نہیں آئے کہ 10 سالہ لوٹ مار کی یادیں ان کے ذہنوں میں اب بھی تازہ ہیں۔
ملک میں بے روزگاری سابقہ حکومتوں کا عطیہ ہے ان بے روزگاروں کو دیہاڑی دے کر 20-10 ہزار بے روزگاروں کو جمع کر لینا کوئی مشکل بات نہیں اور پھر کیمرہ کی مہارت کے ذریعے دو ہزار لوگوں کو دو لاکھ دکھانا کوئی مشکل بات نہیں۔ معاشرے میں ایسے کاریگر بھی موجود ہیں جو ایلیٹ کے مددگار ہیں ان کی کاریگری سے دو ہزار عوام، عوام کے سمندر میں بدل دیے جاتے ہیں اور اس کیمرے کی صفائی سے عوام کو دھوکا دیا جاسکتا ہے کہ جلسہ بڑا کامیاب رہا۔
بلاشبہ عمران خان اور ان کے رفقا یا وزرا کرپشن کے حوالے سے بہت پاک صاف ہیں لیکن پاکستان جیسے 22 کروڑ انسانوں کے ملک کو چلانے کے لیے صرف کرپشن سے پاک ہونا ہی کافی نہیں، اس کے علاوہ بہت ساری صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے جن میں انتظامیہ کو ایکٹیو رکھنے کی صلاحیت ایک اہم اور بڑی صلاحیت ہے۔
خان صاحب میں اس صلاحیت کا فقدان ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستانی مہنگائی نے عوام کے حوصلے پست کردیے ہیں، لیکن اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مہنگائی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک ناگزیر حصہ ہے معاشی ماہرین اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کا حصول سب سے بڑا محرک ہے اور ہماری سیاسی ایلیٹ کی بھی یہی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ اسے دولت کی ایک نہ ختم ہونے والی بھوک لاحق ہے اور حکمرانی اس بھوک کو مٹانے کا ایک سب سے زیادہ اہم ذریعہ ہے۔
ہماری ایلیٹ کی دو بڑی جماعتیں 10 سال حکومت میں رہیں اور ایسی کرپشن کی کہ ملک کی دولت کا ایک بڑا حصہ اس کے ہاتھوں میں جمع ہو گیا۔ عمران خان وزیر اعظم کی نالائقی یہ ہے کہ وہ ایلیٹ سے یا سابق حکمرانوں سے عوام کی لوٹی ہوئی دولت نکالنے میں ناکام رہے اس حوالے سے اپوزیشن سے زیادہ بہتر کون جان سکتا ہے۔ کیا عمران خان اس حوالے سے اپنی سیاسی مجبوریوں کا ازالہ کرسکتے ہیں؟