حکومت کی مسلسل کوششوں کے باوجود عوام مختلف حوالوں سے پریشان ہیں۔ ویسے تو عوام کی پریشانی کی دس ہزاروجوہات ہیں لیکن کرپشن اور مہنگائی یہ دو ایسی بڑی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے بلکہ ان وجوہات کی بنا پر عوام حکومت سے سخت نالاں ہوگئے ہیں۔
وزیر اعظم ٹی وی پر بتا رہے ہیں کہ ہم تیزی سے ترقی کر رہے ہیں ایسے وقت جب کہ ساری دنیا میں معاشی ابتری بڑھ رہی ہے پاکستان کے بجٹ خسارے میں کمی آ رہی ہے، ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، ہماری برآمدات بڑھ رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مارکیٹ میں چاول، آٹا، چینی، دالیں، سبزیوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچ رہی ہیں۔
عوام درآمد وبرآمد کے فائدے نقصان کو نہیں سمجھتے وہ تو بس یہ دیکھتے ہیں کہ سبزی مارکیٹ میں پیاز کی قیمت کیا ہے، آلوکس بھاؤ بک رہا ہے، گوشت کی فی کلو قیمت کیا ہے، دالیں کس بھاؤ مل رہی ہیں، تیل گھی کی قیمتیں کیا ہیں، ان اشیائے صرف کی قیمتوں کے حوالے سے وہ کسی حکومت کے اچھی یا بری ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں اور بدقسمتی سے مذکورہ ساری اشیا کی مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔
اس تناظر میں مہنگائی کے بڑھتے ہوئے عفریت کو جب وہ دیکھتے ہیں تو وہ حکومت سے بدظن ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور حکمران اس حقیقت کو کیوں نہیں سمجھتے کہ زرمبادلہ میں اضافہ، برآمدات میں اضافے اور ملک کے معاشی اعشاریوں میں بہتری کو عوام نہیں سمجھتے، وہ تو بس اتنا جانتے ہیں کہ کل گوشت چار سو روپے کلو مل رہا تھا اور پیاز 20 روپے کلو مل رہی تھی، آج گوشت چھ سو روپے کلو مل رہا ہے، پیاز 80 روپے کلو مل رہی ہے۔ عوام انھی قیمتوں کی کمی زیادتی کے حوالے سے کسی حکومت کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
جب ہم اشیا صرف کی قیمتوں کے حوالے سے حکومت کی ڈھائی سالہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو نہ صرف مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ حکومت اور حکمرانوں کے بارے میں عوام کی رائے منفی اور مایوسی کا مجموعہ بن جاتی ہے۔
اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ پچھلی حکومت کرپٹ تھی اور حکمران طبقے نے اربوں روپوں کی کرپشن کی لیکن عوام اس حکومت سے اس قدر مایوس اور بے زار نہ تھے جس قدر آج کی حکومت سے مایوس اور بے زار ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی حکومت ان کے اندازوں اور توقعات پر پوری نہیں اتری۔ اس کے آنے سے ان کے مسائل اور سنگین ہوگئے۔
اشیائے صرف کے دام بڑھ گئے، پہلے کسی کام کے لیے اگر پانچ سو روپے رشوت لی جاتی تھی تو اب اس کام کے لیے ہزار روپے رشوت لی جا رہی ہے حالانکہ اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے میں بھی ایلیٹ اشرافیہ کا ہاتھ ہے اور دیگر وہ مسائل جن سے عوام ناراض ہوتے ہیں ان میں اپوزیشن کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن اس اسرار سے عوام ناواقف ہوتے ہیں۔
عوام کو اس حقیقت سے واقف ہونا چاہیے کہ اداروں کی ایک عزت ہوتی ہے اور وہ اپنی اس عزت کو ہرحال میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ویسے تو ہمارے ملک میں تقریباً تمام ہی جمہوری حکومتوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مقتدر اداروں سے تعلقات اچھے رہیں لیکن موجودہ حکومت کی ہم اسے نالائقی ہی کہیں گے کہ وہ اداروں کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔
پاکستان پر ایلیٹ یعنی دولت مند طبقات ہی حکومت کرتے آرہے ہیں بلکہ اب ایلیٹ نے اقتدار اور سیاست پر اپنی اجارہ داریاں قائم کرلی تھیں اور شاہوں نہیں شہنشاہوں کی زندگی گزار رہے تھے غریبوں کے بچوں کو سرکاری اسکول میسر نہیں اور امیروں کے بچے برطانیہ، فرانس، امریکا اور جرمنی کے اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ حکومت کے برسر اقتدار آنے سے ان کی بادشاہتیں خطرے میں پڑگئی ہیں اور یہ عوام دشمن طبقات حکومت کو ہر قیمت پر نکال باہر کرنا چاہتی ہے۔ آج کل ملک میں جلسوں کا جو سلسلہ چل رہا ہے وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ کسی طرح حکومت کو مفلوج کرکے رکھ دیا جائے۔
ہماری اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ یہ ملک اس کا اقتدار ہمارے باپ کی جاگیر ہے، اسی فکری برتری کی وجہ اشرافیہ آج حکومت کے خلاف ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے کہ کسی طرح عمران خان کی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی حکومت کو ختم کردیا جائے۔ اس لالچ میں یہ عوام کے دشمن اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست ٹکرا رہے ہیں، اب بھی اگر عوام نہ اٹھیں تو یہ ایک المیہ ہوگا۔