Thursday, 14 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Baar Baar

Baar Baar

ہم ایک عرصے سے ٹرمپ کی جارحانہ بلکہ وحشیانہ پالیسیوں کے خلاف لکھتے آ رہے ہیں، خصوصاً ایران سے امریکا کی دشمنی اتنی نمایاں تھی کہ کسی بھی وقت کسی بڑی جارحانہ کارروائی کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ امریکی صدرکی جارحانہ اور جنگجو فطرت انھیں ہر وقت جارحیت پر اکساتی تھی اور ہے۔ آخر وہی ہوا ٹرمپ نے ایران کے ایک ہیلی کاپٹرکوگرانے کا اہتمام کر ڈالا جس میں فوجی افسروں کے علاوہ ایران کے جنرل سلیمانی بھی سوار تھے۔

جنرل سلیمانی اور ان کے 7 ساتھی اس جارحیت کا شکار ہوگئے۔ ایسے حالات میں ایک فوجی افسر کا قتل بھی آگ کا شعلہ بن جاتا ہے لیکن عراق میں ایران کی رضاکار فورس کے سربراہ کو قتل کروا کر صدر ٹرمپ نے جو حماقت کی ہے اس کے نتائج کس قدرگمبھیر ہوسکتے ہیں شاید اس کا اندازہ ٹرمپ کو نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مہذب دنیا میں کمزورکو جینے کا حق نہیں؟ اگر یہ روایت چل پڑی تو کمزور ملکوں کی حفاظت کا کون ذمے دار ہوگا؟ ایران سے نہ امریکا کو کوئی خطرہ ہے نہ خوف۔ ایران ایک چھوٹا ملک ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل ایران کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور امریکا کے خطے میں مفادات اسرائیل سے وابستہ ہیں، اس لیے امریکا اسرائیل کا محافظ بنا ہوا ہے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خطے میں اسرائیل کو جس سے خطرہ لاحق ہو، امریکا اس کا دشمن بن جاتا ہے۔ ایران دشمنی کے پیچھے بھی یہی ذہنیت کام کرتی نظر آتی ہے۔ عرب ممالک کی بدقسمتی ہے کہ وہ ایران سے جڑکر اپنی طاقت بڑھانے اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے بجائے ایران سے سخت دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مشرق وسطیٰ تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور تیل پر عربوں کا تسلط ہے امریکا اور مغربی طاقتوں کی ایک عرصے سے اس خطے پر نظر تھی وہ ہر حال میں تیل کی دولت پر اپنی بالا دستی چاہتے تھے۔ عربوں کی یہ کمزوری ہے کہ عوام ان سے خائف بھی رہتے ہیں اور عرب حکمرانوں کو پسند بھی نہیں کرتے، سو عرب حکمرانوں نے مغربی ملکوں خصوصاً امریکا کی تیل کی دولت پر بالادستی قبول کرلی، اب سوال یہ تھا کہ اس بالادستی کا تحفظ کیسے ہو۔ امریکا اور مغربی ملک مشرق وسطیٰ سے ہزاروں میل دور ہیں ان کے لیے ایران پر کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے سو انھوں نے اسرائیل کے نام سے خطے میں ایک دلال حکومت بنائی جس کا کام عربوں کو کنٹرول کرنا طے ہوا، وہ عربوں کو کنٹرول کرنے کے بہانے عربوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے لیکن مغربی ملکوں کی دی ہوئی ذمے داری عربوں کو کنٹرول کرنا نبھا رہا ہے۔

دنیا عشروں سے عربوں پر اسرائیل کے مظالم کا تماشا دیکھ رہی ہے لیکن اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتی کیونکہ امریکا اور مغرب سے اس کے مفادات وابستہ ہیں۔ ایران ایک مسلم ملک ہے اور اسرائیل ایک یہودی ملک ہے لیکن یہاں مسئلہ مسلم اور یہودیوں کا نہیں بلکہ حق اور ناحق ظلم اور مظلومیت کا ہے کیا دنیا ظلم کو اسی طرح خاموشی سے دیکھتی رہے گی؟ آج ٹرمپ نے طاقت کے نشے میں چور ہوکر ایرانی رضاکار فورس کے سربراہ اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرا دیا، کل اس ذہنیت کا شکار دوسرے کمزور ملک ہوسکتے ہیں۔ اس قسم کے ظلم اور نا انصافیوں کی روک تھام کے لیے دنیا نے ایک ادارہ بنا رکھا ہے، جسے اقوام متحدہ کے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن یہ ادارہ عملاً بڑی طاقتوں خصوصاً امریکا کی دلالی کر رہا ہے۔

ایران کی رضاکار فورس کے سربراہ جنرل سلیمانی کا قتل ایک سنگین جرم ہے۔ کیا اقوام متحدہ نے اس کھلے اور وحشیانہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائی؟ اس سوال کا جواب ہی اقوام متحدہ کی تفسیر ہے۔ اگر عرب ملک متحد ہوتے اور ان ملکوں میں حقیقی جمہوریت یعنی عوام کی بالادستی پر مبنی جمہوریت ہوتی تو ایران کے خلاف امریکی جارحیت کے خلاف عرب عوام سامنے آتے لیکن امریکا نے اس خطے کے عوام کو غلام بنائے رکھنے کے لیے شیوخ اور عرب بادشاہوں کے اقتدار کے تحفظ کی ذمے داری لی ہے یہی وجہ ہے کہ عوام بے بس ہیں۔

امریکی فوجی جن ہوائی اڈوں میں مقیم ہیں ان ہوائی اڈوں پر راکٹ گرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ایران کے لیڈر کہہ رہے ہیں ہم جنرل سلیمانی کے خون کا بدلہ لیں گے اور سنگین لیں گے۔ بلاشبہ ایران فوجی طاقت کے حوالے سے امریکا سے بہت کمزور ملک ہے لیکن جب قوموں کی عزت کا معاملہ آ جاتا ہے تو کمزور ملک اپنی کمزوری کی پرواہ نہیں کرتے۔ ایران کے سامنے بھی آج یہی سچویشن موجود ہے اگر ایران ری ایکٹ کرتا ہے تو کیا عالمی جنگ کا خطرہ سروں پر نہیں آجائے گا؟ بڑی جنگوں کا آغاز اسی طرح ہوتا ہے اب یہ دنیا کی خصوصاً بڑے ملکوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس آگ کو پھیلنے نہ دیں اور امریکی صدر کو یہ باورکرائیں کہ وہ اس جارحیت کے خلاف ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ایران کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ بہت سارے مسلم ملکوں اور تنظیموں سے کٹا ہوا ہے۔

ہم اکیسویں صدی میں زندہ ہیں، زمین پر بسنے والا انسان چاند پر ہو آیا ہے اور مریخ کے سفر کی تیاری کر رہا ہے۔ اس نئی دنیا میں فرسودہ عقائد ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہی بن سکتے ہیں۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ امریکا جیسے بے لگام اونٹ اور ٹرمپ جیسے وحشی حکمران کے خلاف ساری دنیا کے عوام متحد ہوجاتے تاکہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے بچا کر امن وآشتی کا گہوارا بنایا جاسکے لیکن دنیا کا حکمران طبقہ یہ خواب پورا نہیں ہونے دے رہا ہے۔