ہر سال کی طرح اس سال بھی بھارت میں یوم آزادی اور پاکستان میں یوم سیاہ منایا گیا، مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال رہی۔ بھارت عوامی حمایت سے کس قدر محروم ہے اس کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں بدل دیا گیا ہے۔
حریت قیادت نے کہا ہے کہ کشمیر کی آزادی تک پیچھے نہیں ہٹیں گے، مقبوضہ کشمیر میں یہ تقریب ہر سال یوم آزادی اور یوم سیاہ کے طور پر منائی جاتی ہے۔ یہ آزادی دنیا کے ملکوں سے بالکل الگ ہے دنیا کے ملکوں میں یوم آزادی ساری قوم مل کر مناتی ہے آزادی اور غلامی کے حوالے سے کشمیر میں یہ تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ایک ہزار سال تک ایک ساتھ رہنے والے آج ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے تین جنگیں بھی لڑ چکے ہیں جس میں دونوں طرف کے انسانوں کا جانی نقصان ہوا۔
ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ بھارت یہ لڑائی کیا زمین کے لیے لڑ رہا ہے یا کشمیر کو بھی ہندو ریاست کا حصہ بنانے کے لیے لڑ رہا ہے۔ بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اتنی بڑی آبادی کی ضرورتیں پوری کرنا بہت مشکل ہے اس صورتحال میں زبردستی کشمیر پر قبضے کا مطلب کشمیر کے ایک کروڑ سے زیادہ انسانوں کی رہائش خوراک وغیرہ کی ضرورتیں پوری کرنا ہے جب کہ بھارت اپنے عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہے ایسی صورتحال میں کشمیر کے ایک حصے پر قابض رہنا حماقت کے علاوہ کچھ نہیں۔
بھارت میں صرف سیاستدان نہیں رہتے بلکہ ادیب رہتے ہیں صحافی رہتے ہیں دانشور رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حضرات کیا کر رہے ہیں یہ لوگ ہر حالت میں سچ کا ساتھ دیتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے پھر بھارت طاقت کے ذریعے کب تک کشمیر پر قبضہ رکھ سکے گا؟ میں نے ادیبوں شاعروں وغیرہ کا ذکر اس لیے کیا تھا کہ یہ لوگ بغیر کسی مصلحت کے سچ بات کرتے ہیں اور سچ کا ساتھ دیتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے اس پر حکومت کرنا کشمیریوں کا حق ہے اس حق کو اگر کوئی بندوق کے ذریعے چھینتا ہے تو مذکورہ عمائدین اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیر میں ہندو قوم کشمیر کو چھوڑنا نہیں چاہتی اور بھارتی حکمران ہندو آبادی کی مرضی کے مطابق سیاست کر رہے ہیں کیا دنیا یہ نہیں دیکھتی کہ کشمیری عوام جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی یہ بات ساری دنیا جانتی ہے۔ اس قسم کے تنازعات کے حل کے لیے ایک عدد اقوام متحدہ بنائی گئی ہے جو بڑی طاقتوں کے اشارہ ابرو پر کام کرتی ہے تو پھر کشمیر کا مسئلہ کیسے حل ہوگا۔
اقوام متحدہ نے ایک سے زیادہ بار اپنی قراردادوں کے ذریعے بھارت سے کہا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کرے اقوام متحدہ نے فیصلہ دے دیا ہے کہ کشمیر کا تنازعہ رائے شماری کے ذریعے حل کیا جائے لیکن 72 سال ہوگئے اقوام متحدہ کشمیر میں رائے شماری کرانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ پھر اقوام متحدہ کی ضرورت کیا ہے؟
انسان اس کا تعلق کسی بھی طبقہ فکر سے ہو آج کی دنیا میں جبر کے خلاف ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ بوجوہ اس حوالے سے اپنی رائے دینے سے قاصر ہے اور وہ وجہ کشمیر میں بھارتی فوج کی موجودگی ہے اگر کشمیر سے بھارتی فوج کو نکال دیا جائے تو یقینی طور پر کشمیری عوام کشمیر کو اپنے قبضے میں لے لیں گے اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارتی فوج کشمیری عوام کی رائے کا احترام نہیں کرتے اور یہ رویہ حق خودارادی دنیا کے مسلمہ اصول کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
کیا اقوام متحدہ کی قرارداد کی اس دھڑلے سے خلاف ورزی کے بعد یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اقوام متحدہ کی ضرورت کیا ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ یہ ہے کہ ساری دنیا انسانیت اور اقوام متحدہ کی خلاف ورزی کرتی ہے تو پھر یہ سوال اٹھے گا کہ "پھر اقوام متحدہ کی ضرورت کیا ہے؟ "
دنیا کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ جس ملک میں جس قوم کی آبادی زیادہ ہے وہ اس ملک کی حکومت بنانے کا اختیار رکھتا ہے سوائے کسی خاص استثنیٰ کے۔ کیاکشمیر کرہ ارض پر نہیں، کیا بھارت ان مسلمہ اصولوں کو مانتا ہے؟ یہی وہ مسئلہ ہے جو دونوں ملکوں میں کشیدگی حتیٰ کہ جنگوں کا باعث بنتا رہا ہے۔ اس مسئلے پر بڑی طاقتوں کی سیاست بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔ اگر بڑی طاقتیں کمزور ملکوں کی حمایت اور حفاظت نہ کریں تو وہی صورتحال ہر تنازعہ میں پیش آئے گی اور اقوام متحدہ ایک حرف غلط بن کر رہ جائے گی اور دنیا انارکی کا شکار ہوکر رہ جائے گی۔
بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے بھارت آبادی کے حوالے سے بلا شبہ چین کے بعد آبادی کے حوالے سے دوسرا بڑا ملک ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آبادی کے حوالے سے بھارت دنیا کا دوسرا ملک ہونے کی وجہ سے کیا اس پر بین الاقوامی قاعدے قانون لاگو نہیں ہوتے؟ دنیا کے اہل الرائے نے خوب سوچ بچار کے بعد بین الاقوامی سطح پر وہ قاعدے قانون جاری کیے جو دنیا کو پرامن رکھنے کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔
حق خود ارادی ان ہی بین الاقوامی قوانین میں سے ایک ہے اور نہایت اہم اور ضروری ہے بھارت اس بین الاقوامی قانون کو 72 سال سے ٹھکراتا آ رہا ہے جو ملک بھارت کی اس ہٹ دھرمی پر آواز نہیں اٹھاتے وہ صرف بھارت کی ہٹ دھرمی کی بالواسطہ حمایت کرتے ہیں بلکہ بھارت کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ جس طرح چاہے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کی خلاف ورزی کرے۔
بلاشبہ بھارت دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے لیکن اس حوالے سے اس پر بڑی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں نہ کہ قانون کی کھلی خلاف ورزیاں کرنے کی اجازت ملتی ہے؟ دنیا میں لگ بھگ دو سو ملک ہیں اگر یہ ملک بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے لگیں تو دنیا انارکی کا شکار ہوجائے گی۔ دنیا کو انارکی سے بچانے اور بین الاقوامی قوانین کا پابند بنانے کے لیے دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک کو بین الاقوامی قوانین کا پابند ہونا ضروری ہے۔ یہی طریقہ ہے جس کو بھارت پر لاگو ہونا چاہیے اور دنیا کے ملکوں کو بھارت کو اس حوالے سے مجبور کرنا چاہیے کہ وہ حق خود ارادی کو تسلیم کرے۔