کورونا وائرس کی گزشتہ کئی ماہ سے تباہ کاریاں جاری ہیں، اس عرصے سے دنیا میں اموات کی تعداد 4 لاکھ سے زائد، متاثرہ افراد کی تعداد 70 لاکھ ہوگئی ہے۔ امریکا میں ایک لاکھ 17 ہزار، برطانیہ میں 40 ہزار 465، اسپین میں 27 ہزار، اٹلی میں 33 ہزار، 774 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
یہ وہ ممالک ہیں جن میں ہلاکتیں نسبتاً زیادہ ہوئی ہیں اگر تمام متاثرہ ملکوں کی ہلاکتیں اور متاثرہ لوگوں کی تعداد بتائی جائے تو لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے حالانکہ اب بھی یہ تعداد لاکھوں ہی میں ہے۔ اس حوالے سے یہ بات کسی حد تک باعث اطمینان ہے کہ بعض ملکوں میں اس جہنمی وبا کا زور ٹوٹ رہا ہے اور بعض ملکوں میں یہ وبا خطرناک حد تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا دنیا کے ہر حصے میں جس طرح پھیلی ہے اس کی مثال نہیں مل سکتی اسے ہم دنیا کی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ سخت کوششوں کے باوجود اب تک اس کا کوئی علاج دریافت نہ ہوسکا جتنے منہ اتنی باتیں بعض "مفکرین" کا کہنا ہے کہ دنیا ہی کے بعض تخریب کاروں نے بوجوہ اس وائرس کو دنیا بھر میں پھیلا کر لاکھوں انسانوں سے زندگی چھین لی ہے کہ آنے والے دور میں آبادی کم ہوجائے اور بعض عقل کے گھوڑے دوڑانے کا خیال ہے کہ کسیدوسرے سیارے کے باسیوں نے یہ "کارنامہ" انجام دیا ہے جتنے منہ اتنی باتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے لیے یہ ایک نئی وبا ہے اور انسانوں کے لیے انتہائی تباہ کن ہے۔
اس حوالے سے مایوسی کا عالم یہ ہے کہ حکما اور حکمران فرما رہے ہیں کہ اس وبا سے جان چھوٹنا مشکل ہے اب اس وبا کے ساتھ ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے ان ناقدین کی رائے درست ہو لیکن تحقیق کا پہیہ کبھی نہیں رک سکتا اس حقیقت کے پیش نظر یہ امید کرنا غلط نہیں کہ کورونا کی ویکسین جلد یا بدیر تیار کرلی جائے گی اور دنیا کو اس تاریخی خطرناک وبا سے چھٹکارا مل جائے گا۔
ہمارے بعض بہی خواہوں اور کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی اہلیت رکھنے والوں نے دیسی یعنی یونانی دواؤں کو کورونا کے خلاف آزمانا شروع کیا ہے اور ان دواؤں سے کہا جاتا ہے مریضوں کو فائدہ بھی ہو رہا ہے اس دوا کا نام ثنا مکی بتایا جا رہا ہے جو بڑے پیمانے پر پاکستان بھر میں استعمال کی جا رہی ہے۔
ماضی میں جب انگریزی یا ایلوپیتھک طریقہ علاج دریافت نہیں ہوا تھا اور اس طرح علاج کو استعمال بھی نہیں کیا جا رہا تھا ساری دنیا میں مختلف طریقہ علاج رائج تھا جن میں یونانی طریقہ علاج سب سے زیادہ مقبول تھا اور ان دواؤں ہی سے کام چلایا جا رہا تھا دنیا ایلوپیتھک طریقہ علاج کے بغیر ختم نہیں ہوگئی تھی البتہ مختلف نوعیت کی وبائیں آتی رہتی تھیں جن سے انسانوں کا بہت جانی نقصان ہوتا رہتا تھا۔ لیکن زندگی کی گاڑی رواں دواں تھی، یہی دنیا اور زندگی کا دستور ہے۔
بلاشبہ کورونا وائرس ایک انتہائی خطرناک بلکہ خوفناک وبا ہے کہا جاتا ہے کہ 1913 میں کورونا کی وبا کا دنیا کو سامنا رہا لیکن اس حوالے سے کسی طرف سے حتمی بات سامنے نہ آئی نہ یہ معلوم ہو سکا کہ اگر یہ وبا آئی تھی تو اس سے کتنا نقصان ہوا تھا۔ 1913 کا عرصہ ماضی بعید کا عرصہ نہیں تھا بلکہ یہ عرصہ ماضی قریب کی تعریف میں آتا ہے اگر 1913 میں اس قسم کی کوئی وبا آئی تھی تو اس کی تفصیلات کا آج کی دنیا کو یقینا علم ہوتا کیونکہ 1913 سے پہلے کی تاریخ سے آج کا انسان مغلیہ دور کی تاریخ سے واقف ہے وہ یقینا 1913 کی کسی ممکنہ وبا سے ضرور واقف ہو سکتا ہے۔ 1913کا مطلب بیسویں صدی ہے اور بیسویں صدی ہماری معلومات کا ایک حصہ ہے۔
اب آئیے حال کے کورونا وائرس کی طرف، اس میں ذرہ برابر شک کی بات نہیں کہ اس وبا نے کس قدر جانی نقصان پہنچایا ہے اور جس تباہ کن بلکہ خوفناک طریقے سے پہنچایا ہے ماضی قریب میں بیماریوں کے حوالے سے اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ جس ہولناک طریقے سے یہ وبا انسان کو مار رہی ہے اس سے انسان بجا طور پر دہشت زدہ ہے ہمارے محققین اس وبا کی ویکسین تیار کرنے میں تو اب تک ناکام رہے ہیں کیا ہمارے شعبہ صحت کے ماہرین اور محققین اس وبا کی وحشت ناکی میں کمی کرسکتے ہیں؟
امریکا، یورپ، ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکا کے ممالک اس وبا سے بہت خائف ہیں اور اس کی ہولناکی کی جو آنکھوں دیکھی کہانیاں بیان کی جا رہی ہیں ان کے سننے کے بعد انسانوں کا دہشت زدہ ہونا ایک فطری بات ہے۔ بلاشبہ ہمارے طبی ماہرین اس وبا کی ویکسین تیار کرنے میں اب تک کامیاب نہ ہوسکے جس کا یہ مطلب نہیں کہ مستقبل میں بھی کورونا کی ویکسین تیار کرنے میں انسان ناکام رہے گا۔ خدا کا یہ خلیفہ غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے اور ایک دن وہ ان صلاحیتوں کو استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، ضرور ہوگا۔