حکومت کی طرف سے خاص طور پر حکومتی پارٹی تحریک انصاف کی طرف سے بار بار یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنے 10سالہ دور حکومت کے دوران اربوں روپوں کی کرپشن کا ارتکاب کیا اور کرپشن سے کمائی ہوئی اس بھاری رقم کو ملک کے اندر اور ملک کے باہر اپنے ہم پیشہ طبقاتی ساتھیوں کے پاس رکھ دیا۔
پی ڈی ایم اقتدار کے حصول کے لیے جس انداز کا مظاہرہ کر رہی ہے اور ایک منتخب حکومت کو اقتدار چھوڑنے کے لیے چاروں طرف سے جو دباؤ ڈال رہی ہے اسے حکومت اور علمی اشرافیہ کرپشن کے اربوں روپے بچانے کی کوشش کہہ رہے ہیں۔
ہم جس سماج میں یا سرمایہ دارانہ نظام میں رہ رہے ہیں اس کی عمارت کرپشن کی بنیادوں پر کھڑی ہے اور ہماری اشرافیہ عشروں سے کھلی لوٹ مار میں مصروف ہے جس کا "نوٹس" لینے والا کوئی نہیں کیونکہ جس ملک یا معاشرے میں ہمہ خاندان کا احتساب ہو اس ملک اور معاشرے میں اشرافیہ کی لوٹ مار کو ایک عام سی بات سمجھا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو اشرافیہ کی اربوں روپوں کی لوٹ مار ایک فطری بات ہی نظر آتی ہے۔
اگر ہماری اشرافیہ اس حوالے سے بے گناہ ہے اور اس پر لوٹ مار کے الزامات غلط ہیں تو وہ اپنا دامن صاف رکھنے کے لیے خود عدالت عالیہ جاتی اور اس پر لگائے جانے والے الزامات کی منصفانہ تحقیق کا مطالبہ کرتی لیکن اشرافیہ نے ایسا نہ کیا بلکہ ایک غیر جمہوری راستہ یہ اختیار کیا کہ اپنا سارا زور اس حکومت کو گرانے پر لگا رہی ہے جو اشرافیہ کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔
ہم جس جمہوریت میں زندگی گزار رہے ہیں اس جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ 72 سال سے اشرافیہ کے چند گنے چنے خاندان سیاست اور اقتدار پر قابض ہیں چونکہ عام لوگ اشرافیہ کی اس فنکاری سے واقف نہیں ہوئے لہٰذا عام کی طرف سے اسے مزاحمت کا کوئی خطرہ نہیں، عام آدمی کو بس یہ معلوم ہے کہ پانچ سال میں ایک بار پولنگ اسٹیشن پر گھنٹوں دھوپ میں کھڑے ہو کر پولنگ بکس میں ووٹ ڈالنے کا نام ہی جمہوریت ہے۔
عوام کے اس سیاسی جہل کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی اشرافیائی سیاسی جماعتوں اور ان کے ایجنٹوں نے عوام کو یہی بتایا ہے کہ جمہوریت کا مطلب پانچ سال میں ایک بار پولنگ اسٹیشن جا کر اپنے ووٹ کو اشرافیہ کے بتائے ہوئے پولنگ باکس میں اشرافیہ کے ایجنٹوں کے بتائے ہوئے نشان پر ٹھپہ لگا کر پولنگ باکس میں ڈالنا ہے یہ "جمہوریت" 72 سالوں سے بڑی کامیابی کے ساتھ چالو ہے اور اشرافیہ اس جمہوری درخت کی چھاؤں میں آرام سے زندگی گزار رہی ہے۔
ترقی یافتہ ملکوں میں ہزار خرابیاں ہو سکتی ہیں لیکن ان ملکوں میں ایک تو عوام باشعور ہوتے ہیں دوسرے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں روپوں کی ضرورت نہیں ہوتی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان ملکوں کی پارلیمنٹوں میں عام غریب انسان بھی پہنچتا ہے اور قانون سازی میں حصہ لے سکتا ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کے 22 کروڑ عوام میں سے صرف 22 بھی اتنے سمجھدار اور باشعور نہیں کہ وہ جمہوریت میں اپنے کردار کو سمجھ سکیں۔
بات کی ابتدا اشرافیہ کی لوٹ مار سے ہوئی تھی ہماری محترم اشرافیہ بڑی "فنی" مہارت سے نہ صرف لوٹ مار کے اربوں روپے بچا رہی ہے بلکہ اس عمران حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہی ہے جو مڈل کلاس پر مشتمل ہے اور اشرافیہ اپنی ساری کوششوں کے باوجود بھی عمران حکومت کے خلاف ایک پائی کی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکی۔
اس کے برخلاف اپوزیشن اور اس کے معاون آج جمہوریت کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں اور عمران حکومت کو یہ الٹی میٹم دے دیا ہے کہ وہ 31 جنوری تک حکومت سے دستبردار ہو جائے اپوزیشن میں ایسے متبرک لوگ پیش پیش ہیں جنھیں عام سادہ لوح لوگ دینی اکابرین سمجھتے ہیں۔ آمدم برسر مطلب اشرافیہ پر اربوں روپوں کی لوٹ مار کے جو الزام ہیں اس کی تحقیق کے لیے ہماری عدالت عظمیٰ ایک جوڈیشل کمیشن قائم کرے اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں تحقیقی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دے۔