Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Daulat Aur Iqtedar

Daulat Aur Iqtedar

دولت اور اقتدار دو ایسی چیزیں ہیں، جو انسان کو حیوان بنا دیتی ہیں۔ یہ مرض تازہ نہیں ہے بلکہ صدیوں پراناہے۔ مغلوں کے دورکو دیکھیں، اقتدارکی خاطر مغل ایک دوسرے کو ناقابل یقین تکلیفیں دیتے رہے، حتیٰ کہ ایک دوسرے کو قتل بھی کرتے رہے، اقتدار اور دولت کے نشے میں انسان حیوان بنتا رہا۔ حالانکہ اقتدار اور دولت دونوں اسے حاصل رہے ہیں۔ ہمارے ملک پر اس حوالے سے نظر ڈالیں تو آپ انسانوں کو حیوانوں سے بدتر بنتا دیکھ سکتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ یہ دونوں علامات انسان کو اس قدرحقیر بنا دیتی ہیں کہ حساس انسان کو ایک نہ ایک دن یہ احساس ہوتا ہی ہے کہ وہ دولت کے جس کھیل میں مصروف ہے وہ کھیل اسے ایک دن دنیا میں ذلیل و رسوا کر دے گا۔

اگر ہم اپنے ملک پر نظر ڈالیں تو شرفا کے ایسے چہرے نظر آتے ہیں کہ انھیں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ بہت سے سیاستدانوں اور بیوروکریٹ کی اولادیں بھی بیرون ملک مقیم ہیں یہاں تک کہ ان کی اگلی نسلیں پوتے اور نواسے بھی دولت میں کھیل رہے ہیں، مگر دولت خواہ ڈھیروں میں ہی کیوں نہ ہو عزت کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔

یہ ایک ایسا کھیل ہے کہ ناک والا نزدیک سے نہیں گزر سکتا، ایک پہلو یہ ہے کہ اس کھیل کے کھلاڑی اس قدر بے توقیر ہو جاتے ہیں کہ خود اپنی نظروں میں گر جاتے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا وہ کھیل ہے جو نسلوں تک انسان کو رسوا کر دیتا ہے۔ اس کھیل کا سب سے کم تر پہلو یہ ہے کہ دولت کے خواہ کتنے ہی انبار لگا لیں دولت کی پیاس بجھتی نہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ دولت مند جو دولت جمع کرتا ہے وہ غریبوں کے خون اور پسینے کی کمائی ہوتی ہے۔

ہمارے ملک میں یہ گھناؤنا کھیل 72 سال سے سرمایہ دار طبقہ کھیل رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام وہ کھیل ہے جو اپنے کھلاڑی کو تو خراب کر ہی دیتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ساتھی کھلاڑیوں کو بھی گدلا کر دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے کھلاڑی بہت دولت مند ہوتے ہیں لیکن یہ دولت غریب طبقات سے بالواسطہ چھینی ہوئی ہوتی ہے۔ دولت مند ہونے کے لیے تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں، ایک جاہل شخص بھی بہت بڑا سرمایہ دار ہو سکتا ہے اور یہ سرمایہ ہزاروں غریبوں کی محنت کی کمائی پر مشتمل ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام بہت پرانا نہیں اس کی تاریخ لگ بھگ دو ڈھائی سو سال پرانی ہو گی۔ ہم سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام پر اکثر لکھتے ہیں کیونکہ آج دنیا میں ہم جو دولت کی تقسیم کا نامنصفانہ نظام دیکھ رہے ہیں، وہ ایک ایسا ظالمانہ نظام ہے جس میں ایک طرف وہ لاکھوں غریب ہوتے ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ دوسری طرف وہ دو فیصد طبقہ ہے جن کو زمین پر موجودہ وہ تمام نعمتیں حاصل ہیں جو ان کی زندگی کو جنت بنا دیتی ہیں۔ دوسری طرف وہ کروڑوں بدنصیب انسان ہیں جن کے بچے دو وقت کی روٹی کے لیے ترستے ہیں۔ کیا یہ انصاف ہے ایسے ظالمانہ وحشی نظام کو ختم ہونا چاہیے۔

یہ ایک سادہ سا سوال ہے کہ ایک شخص لاکھوں انسانوں کی تقدیرکا مالک بنا بیٹھا ہے اور دوسری طرف وہ لاکھوں انسان جن کا کل سرمایہ اس کے دو ہاتھ ہیں جو مل کر لاکھوں ہاتھ بن جاتے ہیں، لیکن انھیں بانٹ کر رکھا جاتا ہے کیا یہ کوئی جادونگر ہے جہاں چند لوگ لاکھوں کوکنٹرول کرتے ہیں؟ ہم ہر روز یہ تماشا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص جسے سرمایہ دارکہتے ہیں وہ چوکیداروں کے جھرمٹ میں یعنی نگرانی میں بیٹھتا اٹھتا ہے وہ جب کہیں جاتا ہے تو مسلح چوکیداروں کی گاڑیاں اس کے آگے پیچھے چلتی ہیں۔

اس سب سے سنگین جرم جسے ہم "حق" کہتے ہیں وہ ہے لامحدود نجی ملکیت کا حق۔ ایک شخص اس لیے کروڑ پتی بنا بیٹھا ہے کہ اس کے پاس دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں، بنگلے ہیں، گاڑیاں ہیں نوکر چاکر ہیں اور وہ مغل بادشاہ کی طرح زندگی گزار رہا ہے یہ پورا کرشمہ نجی ملکیت کے لامحدود حق ہے۔ ہمارا قانون ہمارا انصاف کا نظام ایک شخص کو لامحدود حق ملکیت دیتا ہے اور وہ بادشاہ کی طرح اپنا لامحدود نجی حق ملکیت استعمال کرتا ہے، کوئی قانون اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

ہمارے ملک میں انصاف کا نظام ہے، قانون کا نظام ہے، قانون نافذ کرنے والی مسلح مشینری ہے لیکن یہ سب ایک فرد واحد یا چند اشخاص پر مشتمل سیٹ اپ ہے جس کو قانون اور انصاف کی کالی چادر اوڑھا کر بٹھا دیا گیا ہے، اس گارڈ یا گارڈز کے ہاتھوں میں وہ ہتھیار ہے جس سے وہ کسی کی جان بھی لے سکتا ہے۔ دو اندھی طاقتیں جو اپنا ہتھیار اندھے پن سے استعمال کر سکتے ہیں۔

قانون اور انصاف کے دو پیروں پر یہ کھڑا ہوا ہے اور اسے یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنی حفاظت خود اختیاری کا اندھا استعمال کر سکتا ہے اور ملوں کارخانوں میں پیداوار کا اہم کام انجام دینے والے نہتے ہوتے ہیں۔