Friday, 08 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Dehari Daar

Dehari Daar

انسانوں کو نیک نامی اپنی طرف کھینچتی ہے اور بدنامی سے برے بھی خوفزدہ رہتے ہیں۔ ماحول کچھ ایسا ہے کہ بد اچھا بدنام برا والا معاملہ بن گیا ہے اور دھیاڑی دار کارکن پریشان ہیں کہ اس سیاسی کورونا نے انھیں دہشت زدہ کرکے رکھ دیا ہے۔

قلم کار دھیاڑی دار تو ہم بھی ہیں، قلم کار دھیاڑی کے ٹوٹ جانے کے خوف سے جو کچھ ملا پلا ساقی کا ورد کرتے اپنی اور اپنے قلم کی تشفی کر رہے ہیں چونکہ اب تو نہ سہی اور سہی کی منڈی میں عمران والا مشہور لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ مل گیا تو کھا لیے ورنہ شکر بجا لائے، پیٹ کی طرف دیکھتے ہیں اور قلم سے کچھ نہ کچھ لکھ کر دل ہلکا کر لیتے ہیں۔

کالم نگاری ایک فن ہے اور اس کے فنکار برادرم رنگیلا مرحوم کی آواز گاتا جا رے یا روتا جا رے کے بول بھاری آواز میں بدلتے جا رہے ہیں۔ قلم بے چارے کا حال یہ ہے کہ جو مرضی لکھ لیں، اپنادکھ لکھیں یا قوم، کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ ابراہیم جلیس ایک دفعہ قلم سے اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ قلم کو زمین پر پٹخ کر رونے لگے، ہم نے اپنے رومال میں ابراہیم جلیس کے آنسو باندھ لیے تاکہ سند رہیں اور وقت ضرورت کام آئیں۔

ہم لکھتے لکھتے تھک جاتے ہیں تو سر کو تکیے پر ٹیک دیتے ہیں، آج تھکنے کے بعد جب سر کو تکیے پر ٹیکنے کے لیے بے فکری سے تکیے کی طرف لے گئے تو سر کے بل "چارپائی" کے برابر لیٹے دیکھ کر ہنسی آئی، کیوں اس کا جواب صرف اصلی تے وڈا قلم کار ہی دے سکتا ہے۔ آدم! ہم جہاں ضرورت ہوتی ہے یہ کسی کو آدم زاد کسی کو آدم کی اولاد لکھ دیتے ہیں کہ لکھنے میں پائی پیسہ نہیں لگتا۔ ہم ہمیشہ سویرے اٹھنے کے عادی ہیں کہ سویرے سویرے بڑا سکون ہوتا ہے۔ آج بھی بہت سکون ہے لیکن یہ کسی دریا کا سکون نہیں سمندر کا سکون ہے۔ ہم ایک درجن بھر بال پین لاتے ہیں کہ چالو رہیں اور وقت ضرورت کام آئیں۔ یہ بات اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بچے بڑے قلم چور ہیں۔

بہت لکھتے ہیں لیکن بچے سائنس، میتھ وغیرہ لکھتے ہیں۔ افسانے نظم اور غزل نہیں لکھتے۔ ہم جب بھی انھیں ڈانٹ کر افسانہ، نظم یا غزل لکھنے کو کہتے ہیں تو ہاتھ آنکھوں پر رکھ کر زور سے ہنستے ہیں۔ ہمیں خواہ مخوا ہنسی آ جاتی ہے۔ لگتا ہے ہماری ہنسی کا رخ ہماری طرف ہی ہے۔ ہمارا ایک پوتا ہے، بڑا زندہ دل کہنے لگا دادا ہار گئے، ہم خاموش رہ کر اس بچے کی معصومانہ باتیں سنتے رہتے ہیں لیکن ایک بار شاید کہیں آنسو بھی ٹپکے۔ بچہ بولا دادا یہ کیا آپ ہم کو ہمیشہ بہادر بننے کو کہتے ہیں آج آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں ٹپکے؟ اس ننھے بچے کے سوال کا جواب ہمارے پاس نہ تھا۔

ہم بچے کے ساتھ کھسیانے ہوگئے۔ آدم کو اشرف المخلوقات کہا گیا۔ کیا آدم واقعی اشرف المخلوقات ہے؟ اس سوال کا جواب آدم ہی دے سکتا ہے۔ آج ہم ذرا جلدی اٹھ گئے تھے کہ کالم لکھنا تھا لیکن۔۔۔۔ گھر میں قلم نہیں تھا۔ سارا گھر چھان مارا جیسے عمران خان سوتے ہوئے سارے گھر کو چھان مار رہا ہے، میں اپنے بچوں کو قلم چور کہتا ہوں اور بچے ہنستے ہوئے جواب دیتے ہیں دادا! ہم قلم سے کالم، افسانہ یا غزل نہیں لکھیں گے کیونکہ یہ چیزیں اب ناکارہ ہوگئی ہیں۔ ہم آپ کے قلم سے سائنس، ریاضی اور ٹیکنالوجی پر لکھیں گے۔

دوستو! میں نے آج دو کالم لکھنے تھے لیکن ایک ہی پر چیں بول گئے۔ بیٹا! آج جانے کیوں تھک گئے ہیں، پھر ہمارا قلم بھی آج ہمارے پاس نہیں۔ ہمارے بچے قلم چور ہیں، میں چوری کے سخت خلاف ہوں لیکن میرے پوتے قلم چرا کر کالم نہیں لکھتے بلکہ سائنس، ریاضی، ٹیکنالوجی، خلائی سائنس جیسے موضوعات پر لکھتے ہیں، اس لیے میں ان سے ناراض نہیں ہوتا کہ بچے اپنی زندگی ہی نہیں ملک و قوم کی زندگی بلکہ بہتر زندگی کے لیے سائنسی علوم پڑھ رہے ہیں۔ ہم تو الف سے انار، ب سے بکری لکھنے ہی میں پورے ہوگئے۔

لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں کی لوٹ مار کے بعد شرم کی بات ہے کہ اب تک یہ لٹیری کلاس ایکٹیو ہے کیونکہ کوئی خدا کا بندہ ان راستوں کو بند نہیں کرسکا جن راستوں سے لوٹ مار کے تہہ خانوں تک جایا جاسکتاہے چونکہ پرانے چوکیداروں سمیت اندھیرے راستوں پر چراغ سر پر رکھے شیطانی قہقہوں کے ساتھ مصروف کار ہیں۔

ماضی میں لوٹ مار کے ذریعے قارون کے خزانے جمع کرنے والے اپنی ضرورت کے مطابق "کارکنوں " کو جمع کرکے اپنی طاقت سے عوام کو ڈرانے والوں کا المیہ یہ ہے کہ اب عوام ہوشیار ہوگئے ہیں اور غلام بننے کے لیے تیار نہیں، کئی بار عوام کو سڑکوں پر طلب کیا گیا لیکن عوام نے دھتکار کے ذریعے ان کے راجاؤں کی طاقت بننے سے انکار کردیا جو حقیقت پسند تھے، وہ مایوس ہوکر بیماریوں کے بہانے پردیس سدھار گئے اور سیاست کے لیے کامداروں کو پیچھے چھوڑ گئے۔

اب عوام ضرورت کے مطابق اتنے ہوشیار ہوگئے ہیں کہ زندہ باد، پایندہ باد کے بجائے ان کے منہ سے مردہ باد، کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ اول تو عوام نام کی وہ مخلوق تیل اور تیل کی دھار دیکھ کر صمٌ بکمٌ ہوگئی ہے جو دھیاڑی دار ورکر تھے وہ بھی اب ساتھ چھوڑنے لگے ہیں کہ انھیں کل نظر آنے لگا ہے۔ اور وہ کسی نہ کسی متبادل کی تلاش میں ادھر ادھر روزگار کی تلاش میں بھاگ دوڑ کر رہے ہیں لیکن چند خصوصی ورکر اب بھی ہزار بارہ سو کی دھیاڑی پر نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ خانہ زاد ہیں جو انتظار سحر میں آنکھیں بند کیے بھیج مولا چاندی کی توپ سونے کا گولا کا ورد کرتے ہوئے انتظار صبح زریں میں آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں گرمی بلا کی ہے، پسینہ پسینہ ہو رہے ہیں۔