ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی اور ہمارے عوام کی یہ نا اہلی ہے کہ ہم 72 سال گزرنے کے باوجود اب تک غلاموں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہماری غلامی روایتی غلامی نہیں بلکہ جدید دورکی ایک ایسی غلامی ہے جس میں ملک پر صرف مخصوص خاندان حکومت کر رہے ہیں۔ اس بار اس غلامی کو توڑ کر ایک سر پھرا شخص عمران خان نے اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
اس تبدیلی کے خلاف روایتی خاندان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور حکومت کے خلاف ایسی ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ لگتا یہی ہے کہ یہ اقتدار چھین کر رہیں گے، اس حوالے سے تیاریاں جاری ہیں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے میڈیا کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
ن لیگ اس پورے سیاسی کھیل کا مرکزی کردار بنی ہوئی ہے اور تقریباً روزانہ ہی میڈیا کے ذریعے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے خلاف پروپیگنڈے کا سلسلہ جاری ہے، میڈیا دانستہ یا نادانستہ استعمال ہو رہا ہے۔ جب تک ہم اس حقیقت کو نہ سمجھ لیں کہ ہمارے ملک میں روز اول ہی سے کسی نہ کسی طرح اشرافیہ کا راج ہے اور سیاست اور اقتدار پر اشرافیہ کا قبضہ ہے اگرچہ اصل اختیارات ہمیشہ چند اشرافیائی گھرانوں کے ہاتھوں میں ہیں لیکن اب جمہوریت سکڑ کر صرف مخصوص خاندانوں کے ہاتھوں میں آ گئی ہے۔
حکومت کے خلاف جو اتحاد پی ڈی ایم کے نام سے بنا ہے، اس میں کہنے کو تو گیارہ جماعتیں شامل ہیں لیکن سیاسی طاقت کی مالک صرف دو جماعتیں ہیں۔ حکومت کی نااہلی ہے کہ اس نے عوام سے ناتا توڑلیاہے۔ عمران خان حالیہ الیکشن سے پہلے پاکستان کا مقبول ترین لیڈر تھے اور ان کے جلسوں میں لاکھوں عوام شریک رہتے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد جانے کس حکیم نے انھیں یہ مشورہ دیا کہ عوام سے تعلق ختم کر دیں، سو وہ پچھلے ڈھائی سال سے عوام سے لاتعلق ہو گئے ہیں۔
عمران خان کی اس کمزوری سے اشرافیائی جماعتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز تیزی کے ساتھ سیاست پر چھا رہی ہیں ویسے تو ہر سیاسی جماعت کا اولین مقصد اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔
پی ڈی ایم یعنی اپوزیشن کا اتحاد جس میں کہنے کو گیارہ سیاسی جماعتیں شامل ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو جماعتوں کے علاوہ اس اتحاد میں باقی ساری جماعتیں اس لیول کی نہیں ہیں، ان جماعتوں کا مقصد صرف دو متحرک بڑی جماعتوں کی حمایت کرنا ہے۔ ان جماعتوں کے سربراہ عشروں سے سیاست کر رہے ہیں بلکہ عشروں سے اپنے سر پر سیاسی جماعتوں کا بورڈ لگائے ہوئے ہیں عوام سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے اور سیاسی خواص سے بھی ان کا ملنا جلنا اس وقت ہوتا ہے جب دو بڑی جماعتیں متحرک ہوتی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کو فعال اور متحرک کرنے میں مریم نواز نے اہم کردار ادا کیا، آج مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے زیادہ طاقتور جماعت کی حیثیت سے سیاسی میدان میں کھڑی ہے۔ سیاست میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد اور اتفاق رائے مفادات کی بنیاد پر ہوتا ہے آج اگرچہ مسلم لیگ کی سب سے بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی ہے اور ان کے درمیان تعلقات بھی قریبی نظر آتے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت ایسے نوجوان سیاستدانوں پر مشتمل ہے جو اپنے دعوؤں میں ملک کی سربراہی کا خیال رکھتے ہیں چونکہ ابھی ان کے سامنے عمران خان ایک بڑے سیاسی مخالف کے طور پر موجود ہیں۔
لہٰذا ان دونوں نوجوان سیاست دانوں کے درمیان کوئی اختلاف نظر نہیں آتا لیکن جیسے جیسے عمران خان کا خطرہ کم ہوتا جائے گا ویسے ویسے مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی کے درمیان فاصلے بڑھتے جائیں گے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ دونوں نوجوان رہنما ایک دوسرے کے رقیب بن جائیں گے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو ایک دوسرے کے بڑے سیاسی اتحادی بنے ہوئے ہیں لیکن اگر انھیں حکومت کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو کیا دونوں سیاسی رہنما ایک دوسرے کے اسی طرح حمایتی رہیں گے کیونکہ ان دونوں کے نزدیک وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کا مقصد موجود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں کا مشترکہ مخالف عمران خان ان دونوں کو مات دیتا ہے یا خود مات کھا جاتا ہے۔