وزیراعظم عمران خان دعوی کرتے تھے کہ میں اس کرپٹ ایلیٹ کو نہیں چھوڑوں گا اور کرپشن کی ایک ایک پائی وصول کروں گا۔ ہم خان صاحب کی باتوں پر بڑے خوش ہوتے تھے کہ چلو اب کوئی تو ایلیٹ کا گلا پکڑنے والا پیدا ہو گیا لیکن۔۔۔۔ کرپٹ اربوں روپے ہڑپ کر جانے والی ایلیٹ اپنی کرپشن کی اربوں کی دولت کے ساتھ محفوظ ہے اور عمران خان کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ ایلیٹ آزادی کے ساتھ ملک کو لوٹتی رہی اور سر پر لٹکتی حکومت کی یا خان صاحب کی تلوار کے سائے میں اپنی لوٹی ہوئی اربوں کی دولت کو محفوظ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
کہاں ہے وہ قانون، کہاں ہے وہ انصاف جو ناانصافیوں کا دشمن ہے جو غریبوں کا رکھوالا ہے ان کے حقوق کا محافظ ہے۔ ملک کی 80 فیصد دولت جب دو فیصد ایلیٹ کی تجوریوں میں بند ہو اور نجی ملکیت کے تحفظ کی آئینی اور قانونی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے قانون اور انصاف موجود ہو تو ایلیٹ کا بال کون بیکا کرسکتا ہے۔ اس نظام میں 22کروڑ پاکستانیوں کو بھوک، بیماری، بے روزگاری کے ساتھ ہی زندہ رہنا ہے کیونکہ تم22 کروڑ ہونے کے باوجود دو فیصد ایلیٹ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے سمجھے؟
روٹی آٹے کی امید میں بے چارہ مزدور اندھیرے میں اپنی جھونپڑی سے نکلتا ہے اور اس اڈے پر بیٹھتا ہے جہاں سے محنت خریدی جاتی ہے لیکن آج کل یہ اڈے سنسان ہیں کیونکہ کورونا یعنی موت سے سب خوفزدہ ہیں کنسٹرکشن کا کام تقریباً بند ہے لوگ گھر بنانا بھول گئے ہیں۔ اب انھیں یہ یاد ہے کہ دن میں دس بار صابن سے ہاتھ دھونا ضروری ہے ایک دوسرے سے 6 فٹ کے فاصلے پر کھڑے رہنا یا بیٹھنا ضروری ہے کسی سے ہاتھ ملانا کسی سے گلے ملنا موت کو دعوت دینا ہے۔
ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کورونا، ملیر میں آ رہی ہے لانڈھی میں آ رہی ہے، سعود آباد میں آ رہی ہے، لیاقت آباد میں آ رہی ہے، ریڑھی گوٹھ میں آ رہی ہے، نیو کراچی اور ڈرگ روڈ میں آ رہی ہے، سرجانی میں اور شیر شاہ میں آ رہی ہے، کلفٹن میں نہیں جاتی، ڈیفنس میں نہیں جاتی، ماڈل ٹاؤن میں نہیں جاتی، گلبرگ میں نہیں جاتی۔ ایسا کیوں؟ ملک کے ساڑھے چھ کروڑ مزدورو ملک کے کسانوں، ہاریوں، غریبوں! ان سوالوں پر غور کرو کہ شاید تمہارے مسائل کا کوئی حل نکل آئے۔
وہ ممالک جن میں قانون اور انصاف کا نظام اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو مکمل غیر جانبداری اور ایمان داری سے پورا کرتا ہے۔ اس ملک میں عوام مشکلات اور ناانصافیوں کا شکار نہیں، نہ انھیں بھوک بیماری اور بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نہ ایلیٹ آزادی کے ساتھ لوٹ مار میں مصروف رہتی ہے اور جن ملکوں میں قانون اور انصاف کا نظام جانبدار ہو جاتا ہے اس ملک کے عوام کو سخت ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایلیٹ ایسے ملکوں میں بے تاج بادشاہوں کی زندگی گزارتی ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے ملکوں میں وہ واہیات نظام رائج ہے جو ان خرابیوں معاشی ناانصافیوں طبقاتی تفریق کو جنم دیتا ہے۔
پاکستان کا شمار ان پسماندہ ملکوں میں ہوتا ہے جو ایلیٹ کی بے لگام لوٹ مار کی وجہ سے دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں۔ ان کے بچے تعلیم سے محروم ہیں، ان کا گھرانہ بھوک افلاس کی دلدلوں میں پھنسا ہوا ہے کورونا کی وبا سے عوام کو بچانے کے لیے لاک ڈاؤن کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اس کا بدترین اثر ان دیہاڑی دار لاکھوں مزدوروں پر سب سے زیادہ پڑ رہا ہے جو روز کماتے ہیں روز کھاتے ہیں، ایسے حالات میں لاک ڈاؤن سے دیہاڑی دار مزدوروں کے گھروں میں فاقوں کا راج ہوتا ہے۔ مزدور اڈوں پر مزدوری کے انتظار میں دن بھر بھوکے پیاسے بیٹھ کر مایوسی کے ساتھ گھروں کو لوٹتے ہیں، جہاں ان کے بچے روٹی کے انتظار میں بھوک سے تلملاتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف زندگی جنت بنی ہوئی ہے، ایلیٹ کا نہ کورونا کچھ بگاڑ سکتا ہے نہ مہنگائی ایلیٹ کو کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
یہ ہے وہ نظام سرمایہ داری جس کی رکھوالی قانون اور انصاف کرتا ہے۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں نجی ملکیت کا تحفظ قانون اور انصاف کی ذمے داری ہوتی ہے اور اس ظالمانہ نظام میں غریب کی نجی ملکیت اس کے دو ہاتھ ہوتے ہیں جن سے وہ کھیتوں میں اناج اگاتا ہے کارخانوں میں کپڑا بناتا ہے غرض غریب کے دو ہاتھوں کی محنت دنیا کی رونقوں کا دار و مدار ہے۔
پاکستان ایلیٹ کی چراگاہ بنی ہوئی ہے۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہے کورونا ایلیٹ کی لوٹ مار کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا کیونکہ لوٹ مار کے لیے ایلیٹ کو سڑکوں بازاروں میں جانا نہیں پڑتا۔ گھر بیٹھے یہ نیک کام انجام دیے جاتے ہیں۔ کورونا سے پاکستان میں جو لوگ روز مر رہے ہیں وہ نہ جاگیردار ہیں، نہ سرمایہ دار نہ صنعت کار وہ غریب ہیں وہ مزدور ہیں وہ کسان ہیں وہ لوئر مڈل کلاس کے لوگ ہیں جو ایک دوسرے سے چھ فٹ کے فاصلے پر نہیں رہ سکتے کیونکہ انھیں مل جل کر مزدوری کرنا پڑتی ہے۔