اس صدی میں مغرب نے عوام کو جو سب سے بڑا دھوکا دیا، اس کا نام ہے جمہوریت۔ دنیا کی تاریخ میں بڑے بڑے دھوکے باز آئے اور سادہ لوح انسانوں کو دھوکے دیے لیکن انسانی تاریخ میں سب سے بڑا دھوکا جو عوام کو دیا گیا وہ جمہوریت ہے۔
ہرچند کہ ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں جہاں عوام باشعور ہیں اس دھوکے کو سمجھنے لگے ہیں اور ان کا شکارکرنا اشرافیہ کے لیے آسان نہیں رہا۔ لیکن افسوس کہ پسماندہ ملکوں میں یہ فراڈی کھلے عام عوام کو بے وقوف بنا کر ان کا سیاسی اور معاشی استحصال کر رہے ہیں، جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔
جمہوریت کو اکثریت کی حکومت کہا جاتا ہے ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں، دیہی علاقوں کی آبادی کا 60 فیصد حصہ کسان ہیں، عام غریب طبقات کی تعداد مزدوروں کسانوں سے زیادہ ہے یعنی ہماری کل آبادی کا اسی فیصد سے زیادہ حصہ غریب طبقات پر مشتمل ہے۔ کیا ہماری جمہوریت میں اس 80 فیصد سے زیادہ عوام کی کوئی نمایندگی ہے؟
یہ ایسا سوال ہے جس پر ان نام نہاد اور اشرافیہ کے ہمنوا طبقے کو ٹھنڈے دل سے غورکرنا چاہیے کہ وہ جس جمہوریت پر نثار ہوتے ہیں، کیا اس جمہوریت میں عوام کا کوئی حصہ ہے؟ دن کے اجالوں میں عوام کو اتنا بڑا دھوکا دیا جا رہا ہے ہمارے دانشور، ہمارے مفکر، ہمارے صحافی منہ اور آنکھ بند کیے بیٹھے ہیں۔ آج حالت یہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے جو معمولی سا لاک ڈاؤن کیا گیا تھا، اس نے ان لاکھوں ڈیلی ویجزکا کیا حال کیا۔ حکومت نے ہر مزدور فیملی کو بارہ بارہ ہزار نقد دے کر بھوک سے بچایا، ورنہ یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت جانے کتنے انسانوں کو بھوک سے مار دیتی۔
جمہوریت کی تعریف سے عام طور پر ان لوگوں کی زبان خشک ہو جاتی ہے جو جمہوریت کا پھل کھا کر سرخ و سفید ہو جاتے ہیں، اگر جمہوریت کے حامیوں کو جمہوریت کا چہرہ دیکھنا ہو تو غریبوں کی مضافاتی بستیوں ملیر، لانڈھی، کورنگی، لیاقت آباد، نیو کراچی جیسی بستیوں میں جاؤ۔ بڑے بڑے خوبصورت ہالوں میں پوری قوت لگا کر جمہوریت کی شان میں قصیدہ خوانی کرنے والے اگر غریبوں، ناداروں، مزدوروں، کسانوں کی بستیوں میں جائیں گے تو شرم سے ان کی گردنیں جھک جائیں گی۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس طبقاتی جمہوریت میں لاکھوں انسان جہاں بھوک سے بے حال ہیں، گندی بستیوں میں رہتے ہیں وہیں پوش بستیاں ہیں جہاں طبقہ امرا رہائش پذیر ہے۔
دنیا میں جمہوریت کا فراڈ صدیوں سے چل رہا ہے آزادی کے بعد جو تبدیلی آئی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ انگریز کی جگہ دیسی فراڈیوں نے لے لی۔ اس تبدیلی کو جمہوریت کا نام دینا ایک فراڈ کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہمارے جمہوری دانشور جو جمہوریت کے صدقے واری ہوتے رہتے ہیں کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ 72 سال میں عام غریب طبقات کے شب و روز میں کیا بہتری آئی؟ جو کپڑا پہلے غریب پہنتا تھا وہی آج پہن رہا ہے جو روکھا سوکھا وہ پہلے کھاتا تھا وہی آج کھا رہا ہے۔ جمہوریت نے غریب عوام کو کیا دیا؟ کسی جمہوری دانشورکے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟ جمہوریت فراڈ اور کرپشن مغربی جمہوریت کی سوغات ہیں۔ کیا عوام ان "نعمتوں " سے مستفید ہو سکتے ہیں؟
اس فراڈ جمہوریت کے چیمپئن جمہوریت کی سب سے بڑی نعمت آزادی تحریر، آزادی تقریر بتاتے ہیں ہمارے ملک میں بائیس کروڑ عوام ہیں وہ ہماری جمہوریت کی بخشی ہوئی آزادی تحریر، آزادی تقریر کا کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ ابھی ہمارے ملک کے دو صوبوں میں جاگیردارانہ نظام ہے۔ اس نظام میں زندہ رہنے والوں اور غلام داری نظام میں رہنے والوں میں کتنا معنوی فرق ہے ہمارے جمہوری دانشور بتا سکتے ہیں۔ یہ تنقید جمہوریت دشمنی نہیں بلکہ عوام دوستی ہے۔ جمہوریت عوام سے ہے۔ کیا عوام کی زندگی میں کوئی بامعنی تبدیلی آئی ہے؟
اس نظام نے غریبوں کے بچوں کے ساتھ جو سب سے بڑا ظلم کیا ہے وہ ہے ان کی تعلیم سے محرومی۔ تعلیم ہر ملک و قوم میں ترقی کا زینہ ہے غریب کے 98 فیصد بچے تعلیم سے محروم کر دیے گئے ہیں چونکہ ماں باپ غریب طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماں باپ کی کمائی سے خاندان کا گزارا نہیں ہوتا، اس لیے اس بدطینت نظام نے معصوم بچوں کو ورغلانے، غریب ماں باپ کو مجبور کرنے کے لیے چائلڈ لیبرکا ظالمانہ نظام قائم کیا جس میں بھوک سے مجبور ماں باپ خود اپنے چھوٹے بچوں کو کام پر لگا کر آتے ہیں یوں بچوں کی محنت سے حاصل ہونے والی کمائی خاندان کی بھوک کا مداوا بن جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف غریب کے بچے ہی کیوں چائلڈ لیبر کرتے ہیں۔ یہ اسکول کیوں نہیں جاتے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ صرف باپ کی کمائی سے خاندان کا گزارا نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس امیروں کی اولاد کو تعلیم سے لے کر کنوینس تک ہر قسم کی سہولت موجود ہے یہ ہے وہ جمہوریت جس میں غریب کے بچے چائلڈ لیبر کرتے ہیں اور رات دن محنت کر کے اپنے غریب خاندان کا سہارا بنتے ہیں۔ کہاں ہیں وہ اس فراڈ جمہوریت کے حامی جو آزادی تحریر، آزادی تقریر پر سبحان اللہ کے ڈونگرے برساتے ہیں اور جمہوریت کے عطا کردہ چائلڈ لیبر انجوائے کرتے ہیں۔ اب اس فراڈ جمہوریت کا خاتمہ ہونا چاہیے اور عوامی جمہوریت کا آغاز ہونا چاہیے۔