Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Gaahay Gaahay, Bhashani Ka Jalsa

Gaahay Gaahay, Bhashani Ka Jalsa

کراچی میں مزدوروں کی ہم نے ایک تنظیم بنائی تھی، نام رکھا تھا "لیبر آرگنائزنگ کمیٹی"، لانڈھی صنعتی ایریا میں واحد تنظیم تھی جس میں تقریباً ساری ٹریڈ یونینز شامل تھیں، تنظیم کا سیکریٹری جنرل ہمیں بنایا گیا تھا، اس تنظیم کا ایک حصہ ڈھاکا مشرقی پاکستان میں تھا۔ ڈھاکا سے دوست یہاں یعنی کراچی آتے تھے کراچی سے ڈھاکا جاتے تھے بڑی مضبوط اور نمایندہ فیڈریشن تھی۔ اس زمانے میں علاقے میں ہڑتالوں کا ایک بڑا سیزن چل رہا تھا۔ ہر طرف مزدور لال جھنڈے اٹھائے احتجاج میں مصروف تھے اسے لانڈھی میں ہڑتالوں کا سیزن کہا جاسکتا ہے۔

ایک روز ہم مسیح الرحمن کے بنگلے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی بھی اس میٹنگ میں موجود تھے، انھوں نے اچانک کہا "بھائی ہمارا لانڈھی کے مزدوروں میں جلسہ کراؤ" سب کی نظریں ہماری طرف اٹھیں اور ہم نے بلا سوچے سمجھے، ہاں کر دی۔ ہم چند دوست بیٹھ کر پروگرام بنانے لگے۔ دوسرے دن صبح ایک ملز کے گیٹ پر ہم چند دوست اکٹھے ہوئے اور پہلی شفٹ کے مزدوروں کو روک کر انھیں بتایا کہ کل بھاشانی لانڈھی آئیں گے اور 89 کے گراؤنڈ پر جلسہ ہوگا۔ خیر دوسرے دن ہم مقررہ وقت پر جلسہ گاہ پہنچے میدان مزدوروں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ پھر ان کی آمد پر نعروں کا ایک طوفان اٹھا۔ میدان مولانا بھاشانی کے نعروں سے گونجنے لگا۔

نعروں کے شور میں انھوں نے تقریر شروع کی جلسہ گاہ میں ممتاز شاعر جون ایلیا، سعید رضا سعید سمیت دیگر شعرا بھی شامل تھے۔ جنھوں نے اپنا کلام سنا کر جلسے کو بیدار کردیا۔ اس کے بعد بھاشانی صاحب نے جو ان دنوں جلاؤ گھیراؤ کے حوالے سے بہت مشہور تھے اپنی گلابی اردو میں تقریر شروع کی۔ ہر دو منٹ بعد میدان نعروں سے گونجتا رہا، ان کی پرجوش تقریر کے بعد جلسہ ختم ہوا۔ جلسے میں بلاشبہ ہزاروں لوگ تھے جلسہ گاہ سے ہم جلوس کی شکل میں مسیح الرحمن کے گھر روانہ ہوئے۔

مسیح الرحمن کے گھر پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہاں ہماری گرفتاری کے لیے پولیس موجود تھی جو ہمیں بائی فیس نہیں جانتی تھی۔ مشورہ کیا گیا کہ یہاں سے کس طرح نکلا جائے۔ مولانا نے کہا کہ "میرا کرتہ پہن کر نکل جاؤ" اس زمانے میں سینئر صحافی اقبال جعفری ہر جگہ موجود ہوتے تھے۔ اقبال جعفری کی موٹرسائیکل کے پیچھے بیٹھ کر ہم پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے باہر نکل گئے، یہ واقعہ ہماری یادوں اور حافظے میں محفوظ تھا لہٰذا لکھ دیا۔

دنیا ایک دلچسپ ترین جگہ ہے جس طرف آنکھ اٹھاؤ ایک نیا نظارہ نئی بات نیا سین انسان حیرت سے پتھر بن جاتا ہے اور انسانوں کے لیے دلچسپیاں ہی دلچسپیاں۔ خدا ایک ہے لیکن ہر مذہب میں اسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔

ہم دنیا بنانے والے کو اللہ، خدا وغیرہ کے نام سے یاد کرتے ہیں، ہندو اسے بھگوان، پرماتما وغیرہ کے نام سے یاد کرتے ہیں، عیسائی اسے گاڈ کے نام سے یاد کرتے ہیں، اسی طرح ہر مذہب کے ماننے والے مختلف ناموں سے یاد کرتے ہیں کیونکہ انسان کو اپنے عقیدے کے مطابق بڑی سے بڑی مایوسی میں بے اختیار اللہ، پرماتما، گاڈ کا نام ذہن میں آتا ہے اور اسے مایوسیوں میں امید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔ بے قرار انسان کو قرار آ جاتا ہے، بے چین انسان کو سکون آتا ہے۔ یہی اس کے کرشمے ہیں یہی اس کی سچائی ہے یہی اس کی قدرت ہے۔

میں معمولی انسان ہوں، میں غیر معمولی انسان ہوں، میں دنیا کے ہر بڑے مسئلے پر سوچتا ہوں، غور کرتا ہوں اور حیران رہ جاتا ہوں، خدا کی قدرت کے اتنے معجزے ہیں کہ انھیں دیکھ کر انسان خاکی اور حیران انسان مزید محو حیرت ہو جاتا ہے۔ ایک مسلمان جب مصیبت کے وقت خدا کا نام لیتا ہے تو اسے سکون آ جاتا ہے اسی طرح ہر مذہب کے ماننے والے اپنے پیدا کرنے والے کا نام لیتے ہیں۔

ایک بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ کسی نہ کسی حوالے سے ہر شخص خدا کا نام ہی لیتا ہے خدا ایک پاک ذات ہے لیکن میں اس وقت حیران رہ جاتا ہوں جب مذہب کے نام پر لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، جنگیں کرتے ہیں، ایک دوسرے کو بے دردی سے مارتے ہیں۔ دنیا کے بہت سارے آدمی انسان کے ان کارناموں پر حیران اور دکھی ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اے میرے خدا انسان انسان سے نفرت کیوں کرتا ہے، انسان انسان کو قتل کیوں کرتا ہے؟