آج میں ڈاکٹر کے پاس دوا لینے گیا تھا۔ ڈاکٹر بہت سینئر اور تجربہ کار ہے، میں عشروں سے انھی سے علاج کراتا آ رہا تھا۔ میرے قریب ایک اجنبی بیٹھا تھا لیکن کچھ جانا پہچانا لگتا تھا۔ عمر بھی کافی ہوگئی تھی حلیہ بھی بدل گیا تھا لیکن چونکہ چہرہ جانا پہچانا لگتا تھا لہٰذا اس میں ہماری دلچسپی فطری تھی۔ ہم بھی اب وہ نہ رہے تھے جو 1969-70 میں تھے لیکن بہرحال ہمارا حافظہ بہتر تھا خاص طور پر پرانے زمانے پرانے لوگوں کے حوالے سے ہماری یادداشت قابل رشک تھی۔
مجھ سے رہا نہ گیا میں نے اس کا نام پوچھا تو پتا چلا کہ یہ ہمارا نہ صرف سابق ٹریڈ یونین کا رکن تھا بلکہ اپنے کارخانے کی یونین کا صدر تھا۔ 1969 میں یہ جوان ہی نہیں بلکہ خوبصورت نوجوان تھا۔ تعارف کے بعد اس نے بتایا کہ وہ ایک مل میں چوکیدار کی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔ چونکہ کلینک بند ہو رہا تھا سو ہمیں بھی وہاں سے نکلنا پڑا یہ بندہ اپنے دور میں بہت متحرک تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ 1973میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ٹریڈ یونین کا خاتمہ کردیا تھا اس دور کے ڈسے ہوئے مزدور آج ویسے تو بوڑھے ہوگئے ہیں لیکن حیران ہیں کہ اس دور میں اگر ایک مزدور کو نکال دیا جاتا تو ہڑتالیں ہو جاتی تھیں آج عالم یہ ہے کہ مالکان لاٹ میں مزدوروں کو نکال رہے ہیں۔
کوئی پرسان حال نہیں ٹھیکیداری نظام نے مزدوروں کو غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔ سابق مزدور رہنما نے روتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی یونین کا نام لیتا ہے تو اسے کان پکڑ کر نکال دیا جاتا ہے کوئی پرسان حال نہیں۔ ہمیں نہیں پتا کہ کوئی وزیر محنت ہے یا نہیں لیکن ہمارے نئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان غریب عوام مزدوروں سے ہمدردی جتاتے ہیں۔
اس لیے ہماری موصوف سے گزارش ہے کہ وہ مزدوروں پر ہونے والے مظالم کا نوٹس لیں خاص طور پر ٹھیکیداری نظام کو ختم کرکے مزدوروں کو مالکان اور ٹھیکیداری نظام سے چھٹکارا دلائیں اور ٹریڈ یونین کو کام کرنے کی آزادی دیں۔ ورنہ عوام اور نئے پاکستان کی بات کرنا چھوڑ دیں۔ ہم نے عمران خان کی غیر مشروط حمایت کی صرف اس لیے کہ اس بندے کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور سترسال بعد اس ملک میں ایک مڈل کلاس کی حکومت آئی ہے اور ایلیٹ کلاس کے گھروں میں پریشانی کا سماں ہے۔ اگر عمران خان نے ٹریڈ یونین کی آزادی بحال نہ کی تو اس کے سارے دعوے ہوا کے دعوے ہوں گے۔
میں چونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ یعنی ڈبل ایم اے تھا اور برسوں سے مزدوروں میں کام کر رہا تھا۔ لہٰذا میں نہ صرف مزدوروں کے مسائل سے اچھی طرح واقف تھا بلکہ ان کے مسائل بھی بڑی احتیاط اور کامیابی سے حل کرتا تھا۔ ان دنوں ہڑتالوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا مزدور مشتعل تھے اور ایوب خان کے دور میں ملوں کے جن عہدیداروں نے مزدوروں پر مظالم کیے تھے مزدور ان کا حساب چکا رہے تھے۔
ہم نے ذکر کیا تھا کہ مزدور بہت برے حال میں ہے۔ آج ہمیں 1963 کی ایک بات یاد آ رہی ہے ہم اگرچہ ڈبل ایم اے تھے لیکن کے پی ٹی میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کر رہے تھے ہمارا کوئی گھر نہ تھا دوستوں کے مشورے پر ہم نے سرکاری ادارے سے ایک لاکھ کا قرض لیا اور ادا بھی کردیا، ایک دن چار پانچ آدمی آئے اور کہا کہ مکان دکھاؤ، ہم حیران کہ معاملہ کیا ہے۔
ہمیں بتایا گیا کہ آپ پر پونے دو لاکھ قرض باقی ہے غالباً یہ سود تھا اس لیے آپ کا گھر نیلام کیا جا رہا ہے، یہ بات کسی طرح ہمارے دوست محمد علی صدیقی کو معلوم ہوئی وہ ادیبوں کی مدد کرنے والی کمیٹی کے ممبر تھے انھوں نے کوشش کرکے ہمیں ایک لاکھ روپیہ دلایا آج ہم صدیقی کی وجہ سے اپنے گھر میں بیٹھے ہیں ورنہ پتا نہیں ہمارا کیا حشر ہوتا۔
یہ غالباً 1969 کی بات ہے ہم اس دور میں مزدوروں کی ایک انقلابی ٹریڈ یونین لیبر آرگنائزنگ کمیٹی کے سیکریٹری جنرل تھے، یہ تنظیم لانڈھی انڈسٹریل ایریا میں کام کرتی تھی۔ اس یونین کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں تقریباً تمام نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور کوشش تھی کہ اس یونین یا فیڈریشن کو ایک مثالی یونین بنایا جائے اور اس میں کوئی شک نہ تھا کہ لیبر آرگنائزنگ کمیٹی ایک مثالی اور لڑاکا یونین تھی اور لانڈھی کورنگی میں مزدوروں کے مسائل ان کی مرضی کے مطابق حل کرنے میں لگی ہوئی تھی چونکہ اس تنظیم میں تقریباً زیادہ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور مزدوروں کے مسائل بڑی نیک نیتی سے حل کرواتے تھے جس کی وجہ سے علاقے کے تقریباً تمام مزدور اس سے جڑ گئے تھے۔
ایوب خان کے زمانے میں چونکہ مزدوروں پر بڑے سفاکانہ مظالم ڈھائے جاتے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مزدور بہت مشتعل تھے اور فیکٹریوں اور ملوں پر مزدوروں کا کنٹرول تھا۔ حالات یہ تھے کہ مالکان یونین کی اجازت لے کر اپنی ملوں کارخانوں میں آتے تھے اور مزدوروں کے مسائل حل کرتے تھے مل ایریا میں امن و امان برقرار تھا۔