اقتدار سے محروم کی جانے والی پاکستانی اشرافیہ ڈیڑھ سال سے انگاروں پر لوٹ رہی ہے وہ کب کا حکومت کا دھڑن تختہ کرچکی ہوتی لیکن اس کی بد بختی یہ ہے کہ عوام اس کی سازشوں اور بے پناہ کرپشن سے نہ صرف واقف ہوگئے ہیں بلکہ نفرت کرنے لگے ہیں۔
عوام کی حمایت سے محرومی نے اسے ڈیڑھ سال سے مایوسیوں میں دھکیل دیا ہے، عوام سے مایوس ہوکر عوام دشمن اشرافیہ نے سازشوں کا سہارا لینا شروع کردیا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں عوام کے منتخب نمایندے چونکہ انتخابات پر بھاری سرمایہ کاری کرتے ہیں جس کی وصولی کے لیے وہ ہر بد دیانتی کو جائز سمجھتے ہیں۔
ہماری اقتدار سے محروم اشرافیہ منتخب نمایندوں کی ان کمزوریوں سے واقف ہے، اس لیے اب انھیں استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے ہر طرف سازشوں کے جال بنے جا رہے ہیں۔ حکومت کے لیے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔ عوام کی روزکی ضرورت آٹے کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کو حکومت سے بدظن کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس سازش کی ناکامی کے بعد اب اشرافیہ پی ٹی آئی کے اندر توڑ پھوڑ شروع کرچکی ہے اور اس کا آغاز خیبر پختونخوا حکومت سے کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں انسان کی پہلی اور آخری ترجیح دولت ہوتی ہے۔ اشرافیہ کی کمر لوٹ کے مال سے جھکی جا رہی ہے، اشرافیہ نے پی ٹی آئی کے ارکان میں توڑ پھوڑ کا آغاز کردیا ہے جو بلاشبہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
کے پی کے اسمبلی کے تین ارکان کو برطرف کردیا گیا ہے، ان وزرا کی برطرفی سے عوام میں حکومت سے بدظنی میں اضافہ ہو رہا ہے، اسے ہم حکومت پر اشرافیہ کا کامیاب وار کہہ سکتے ہیں۔ اشرافیہ ہر قیمت پر اقتدار چاہتی ہے اور دولت کا استعمال اسے اچھی طرح آتا ہے۔ کے پی کے میں انتشارکا سب سے بڑا مقصد عوام کے ذہنوں میں انتشار پیدا کرنا ہے اور وہ اس سازش میں کامیاب ہو سکتی ہے اگر کے پی کے کا انتشار ختم نہیں ہوتا۔ عمران خان اس وقت ایک ایسی ان دیکھی طاقت سے نبرد آزما ہے جس کے چار ہاتھ ہیں، چار پیر ہیں، دو سر ہیں۔ جو دولت کے انبار پر بیٹھی ہوئی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ملک پر 72سال سے قابض اشرافیہ نے ہر شعبہ زندگی میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرلی ہیں کہ انھیں کاٹنا عمران خان جیسے ناتجربہ کار سیاستدان کے لیے آسان نہیں۔ اور موقع پرست اشرافیہ اس حقیقت سے واقف ہے کہ عمران خان ایک ناتجربہ کار حکمران ہے، اسے سازشوں کے ذریعے ہٹانا زیادہ مشکل نہیں۔ سو اس نے سازشوں کا آغاز کردیا ہے۔ عوام کو اس حقیقت سے آشنا ہونا چاہیے کہ پندرہ ماہ کے دور حکومت میں اشرافیہ کوشش کے باوجود نہ عمران خان پر کرپشن کا الزام لگا سکی نہ ان کے ناراض ساتھیوں پر بھی کرپشن کا الزام لگا سکی، یہی وہ تلخ حقیقت ہے جس سے اشرافیہ سخت پریشان ہے۔ اشرافیہ کی قیادت مایوسی کا شکار ہے اور ملک سے باہر چلی گئی ہے لیکن دولت کے بے تحاشا استعمال سے وہ سازشوں کے جال بہرحال بن رہی ہے۔
بدقسمتی سے خیبر پختونخوا میں حکومتی ارکان "آسانی سے سازشوں کا شکار" ہو جاتے ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اشرافیہ نے کے پی کے پر ہی حملہ کیا ہے اور وزیر اعلیٰ کے پی کے خلاف گروپ بندی میں کامیاب ہوگئی ہے لیکن کے پی کے کے عوام کی ایک خوبی یہ ہے کہ اگر ایک بار ان کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ یہ گروپنگ اشرافیہ کی سازش ہے جس کا مقصد حکومت کو کمزور کرنا ہے اور اپنی کمزوریوں کے باوجود اشرافیہ حکومت پر کرپشن کے الزامات نہیں لگا سکی اور ایک عوام دوست حکومت کو ہٹانے کی مہم کا حصہ بننا غلط ہے تو پھر اشرافیہ خواہ کتنی ہی کوشش کر لے اسے کے پی کے حکومت کے خلاف سازشوں میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔
حکومتوں کو رکھنے یا نکالنے کا فیصلہ عوام کرتے ہیں۔ عمران خان کو یقینا اس حقیقت کا پتہ ہوگا اگر پی ٹی آئی حکومت کے پی کے میں عوامی مسائل تیزی سے حل کرنے لگے تو سازشی اپنی سازشوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ عمران خان خارجی معاملات کو اچھی طرح ہینڈل کر رہے ہیں جس کی وجہ عالمی برادری میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بڑی اچھی بات اور حکومت کی کامیابی ہے لیکن اس وقت اصل مسئلہ ملک کے اندر اشرافیہ کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے کیا اس حوالے سے حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کر رہی ہے۔ اصل سوال یہ ہے اگر حکومت سائنٹیفک طریقے سے اشرافیہ کی سازشوں کو ناکام نہیں بنا پاتی تو یہ ایک ایسا المیہ ہوگا جس کا نقصان عوام کو بھگتنا ہوگا۔
بدقسمتی سے ہمارے اہل علم اہل دانش اس حقیقت کو بوجوہ نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ 72 سال سے اس ملک کی سیاست، جمہوریت اور اقتدار پر پر بلاشرکت غیرے اشرافیہ قابض ہے 72 سال بعد "کسی نہ کسی" طرح ملک کو اشرافیہ کی لوٹ مار سے نجات ملی۔ اقتدار کے ہاتھوں سے نکل جانے کی وجہ اشرافیہ پاگل ہو رہی ہے۔
وہ ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے، اس حقیقت کے تناظر میں عمران حکومت کی پہلی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنی صفوں میں انتشار پیدا نہ ہونے دے اور اپنے ارکان کو ہر قیمت پر اپنے ساتھ رکھے تاکہ اشرافیہ کو یہ موقع نہ ملے کہ حکومت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے یہ بڑی اچھی بات ہے کہ حکومت اشرافیہ کے قبضے سے بچی ہوئی ہے اور اس کی کوشش ہونی چاہیے کہ اقتدار پر اشرافیہ کا سایہ بھی نہ پڑنے دے۔ حکومت سے اختلاف رکھنے والے اراکین کو اس حقیقت کا احساس ہونا چاہیے کہ اگر اشرافیہ ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو عوام کا اس آسیب سے نجات پانا مشکل ہو جائے گا۔
بدقسمتی سے ہماری "نظریاتی اشرافیہ" اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے کہ ہمارے ملک میں عوام کو بھیڑ بکری بناکر رکھ دیا گیا ہے اور یہ "کارنامہ" ہماری سیاسی اشرافیہ نے انجام دیا ہے۔ عمران خان نہ کوئی انقلابی ہے نہ ملک میں کوئی معنوی تبدیلی لانے کا اہل ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس نے اشرافیہ کو پچھاڑ دیا ہے اور اہل علم اہل دانش کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ مزدوروں، کسانوں، دانشوروں کو آگے لانے کی سنجیدہ کوشش کریں۔