انسانی سماج کوئی جامد یا کبھی نہ تبدیل ہونے والا سسٹم نہیں۔ معاشرے ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ان طاقتوں پر منحصر ہوتا ہے جو تبدیلیوں کی رہنمائی کرتی ہیں کہ وہ تبدیلیوں کا رخ مثبت سمت میں رکھتے ہیں یا منفی سمت میں۔
پاکستان کی تاریخ میں ویسے تو سیاسی جماعتوں کی کثرت رہی ہے لیکن معاشرے کو تبدیل کرنے اور اس کی درست سمت میں رہنمائی کرنے والی طاقتیں برائے نام ہی رہی ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں بایاں بازو ہی ایک ایسی طاقت رہی ہے، جو ہمیشہ یہ کوشش کرتا رہا ہے کہ معاشرتی ڈھانچے کی درست سمت میں رہنمائی کرے، لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ اس لیے برآمد نہیں ہو سکا کہ بائیں بازوکی رہنمائی کرنے والوں میں ایسے لوگ نہ ہونے کے برابر ہی رہے، جو اس بڑی ذمے داری کو پورا کر سکیں۔
عام طور پر نظریات کو اپنی مرضی اور مفادات کے تابع کرنے کے رواج نے ہمیشہ بائیں بازوکو کمزور کیا۔ کامریڈوں کی اکثریت حقائق کے ساتھ چلنے کے بجائے انقلابی عنصروں کے ساتھ چلتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس حوالے سے کوئی ٹھوس کام نہ کر سکے اور اپنی توانائی کو فضول کاموں میں ضایع کر کے تھک ہار کر بیٹھ گئے۔
بائیں بازوکی تحریک کو سب سے زیادہ نقصان روسی، چینی تقسیم میں ہوا۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں اس تقسیم نے ترقی پسندوں کی طاقت کو دو حصوں میں بانٹ دیا اور یہ سلسلہ چلتے چلتے بے عملی اور لفاظی تک پہنچ گیا۔ عملاً آج بھی ہم اسی غیر فعالیت کے دور سے گزر رہے ہیں اور یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ کوئی جماعت یا کوئی تحریک غیر فعال ہو جاتی ہے تو آپس میں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے۔
نااہلوں اورنکموں کی بن آتی ہے، نظریاتی کام پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور جو باقی رہ جاتا ہے وہ "کامریڈ" رہ جاتا ہے اور کارکن اسی محورکے گرد گردش کرتے رہتے ہیں۔ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاشرتی ڈھانچے مستقل تبدیلیوں کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں اگر ان کی قیادت یا عمل لوگوں کے ہاتھوں میں ہو تو کچھ نہ کچھ کام ہوتا رہتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ طبقاتی تضادات جب ان کی حد سے بڑھ جاتے ہیں تو پھر وہ تبدیلیوں کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ فرانس اس حوالے سے ایک تابندہ مثال ہے، دنیا کی انقلابی تاریخ میں انقلاب فرانس کا ایک منفرد مقام ہے جب فرانس میں اشرافیہ کے مظالم ناقابل برداشت ہو گئے تو فرانس کے مشتعل عوام ظالم اشرافیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
عام آدمی کے گھر میں نہ بندوق ہوتی ہے نہ تلوار، سو فرانس کے عوام کا بھی یہی حال تھا لیکن فرانس کے عوام میں صبر و برداشت ختم ہو چکے تھے، سو عوام نے یہ کیا کہ انھیں چاقو، چھری اور اس قسم کے جو "ہتھیار" ملے، وہ لے کر اپنے گھروں سے باہر آ گئے اور اشرافیہ کے شیطانوں کا وہ قتل عام شروع کیا جس کی تاریخ میں مثال نہیں مل سکتی۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ظالموں کو چن چن کر اس طرح قتل کیا کہ فرانس کی سڑکیں اشرافیہ کے خون سے سرخ ہو گئیں۔
یہ انقلاب فرانس تھا جو دنیا کے انقلابات کی تاریخ میں سر فہرست تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرانس کے عوام اس قدرمشتعل کیوں ہو گئے تھے کہ فرانس کی اشرافیہ کو قتل کرنے کے در پے ہو گئے تھے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ فرانس کے بالادست طبقات نے فرانس کے عوام کی زندگی کو جہنم میں بدل دیا تھا۔ جس کا فطری ردعمل یہ تھا کہ فرانس کے عوام نے فرانس کی اشرافیہ کو ایسی سزا دی جو تاریخ کی شہ سرخی بن گئی۔ آج بھی جہاں ظلم کے خلاف شدید ردعمل ہوتا ہے وہاں انقلاب فرانس کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے۔
جن انقلابات کو اہل فکرکی رہنمائی حاصل ہوتی ہے وہ انقلاب اپنے ہدف سے دور نہیں جاتے اور جن انقلابات کو رہنمائی نہیں ملتی وہ انقلاب فرانس بن جاتے ہیں، دنیا کے پسماندہ ملکوں میں بہت سے ایسے ملک ہیں جہاں عوام پر فرانس کی اشرافیہ سے زیادہ ظلم ڈھائے جا رہے ہیں لیکن اس کے ردعمل سے محرومی کی دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں، ایک یہ کہ یہ پسماندہ ملک میچور قیادت سے محروم ہیں دوسرے یہ کہ عوام تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں طبقاتی بنیاد پر منظم نہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسے ملکوں میں انقلاب کے آثار نہیں۔
ہر ملک، ہر معاشرے میں دو طبقات یعنی مزدور اور کسان انقلاب کے داعی ہوتے ہیں لیکن جہاں مزدور اور کسان طبقاتی بنیادوں پر منظم اور متحرک نہیں ہوتے ایسے ملکوں میں کسی بامعنی تبدیلی کے امکانات کم رہتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک جہاں اشرافیہ نے بڑی مہارت سے عوام کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ کر رکھا ہے وہاں اشرافیہ بہت طاقتور ہوتی ہے اور جسے ہٹانا بہت مشکل ہوتا ہے۔