دنیا بھر کے غریب عوام سخت اضطراب کا شکار ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اضطراب کی اصل وجہ کو پس پشت ڈال کر کہیں مہنگائی کے نام پر اضطراب برپا ہے۔
کہیں کرپشن کے نام پر کہیں بد عنوانیوں کے نام پر غرض مختلف حوالوں سے پوری دنیا کے عوام ایک مستقل اضطراب میں مبتلا ہیں اور ریاستیں اس اضطراب کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کر رہی ہیں ویسے تو پوری دنیا ہی اضطراب اور بے چینی کا شکار ہے لیکن یہ اضطراب اور بے چینی جن ملکوں میں پر تشدد احتجاج کی شکل میں نظر آرہی ہے، ان ملکوں میں لبنان، عراق وغیرہ سرفہرست ہیں۔ عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا ہے اور عوام کا جائز غصہ پر تشدد احتجاج کی شکل میں باہر آ رہا ہے۔
لبنان کے دارالحکومت بیروت میں خراب معاشی صورتحال کے خلاف احتجاج پر تشدد مظاہروں کی شکل میں باہر آ رہا ہے۔ احتجاج میں مظاہرین نے حکومتی تبدیلی کو ناکافی قرار دینے کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور ٹیکسوں میں کمی کا مطالبہ کیا ہے۔ پر تشدد مظاہروں میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں مزید 370 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ درجنوں مظاہرین کوگرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتاریوں اور مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی وجہ سے صورتحال اور خراب ہو رہی ہے۔ لبنان ویسے تو ایک عرصے سے سیاسی اضطراب کا شکار ہے لیکن ان میں شدت اکتوبر کے مہینے سے آگئی ہے، جس کے نتیجے میں لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری نے اپنی وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔
سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو پارلیمنٹ کی عمارت کے نزدیک جانے سے روکنے کے لیے آنسو گیس کے گولے مظاہرین پر پھینکے اور پانی پھینکنے والی توپوں کو استعمال کیا جس کے جواب میں مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور گملے پھینکے۔ مظاہرین نے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں نکلنا شروع کیا اور پھر ریلیوں کی شکل میں آگے بڑھنا شروع کیا۔ حکمرانوں نے انتظامیہ کو مظاہرے ختم کرانے کی ہدایت کی لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والی صورتحال پیدا ہوتی گئی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام جن حالات سے مشتعل ہیں ان کی جڑ یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کے بجائے اس کے عوامل کے پیچھے دوڑتے رہے۔ جس کے نتیجے میں وہ حالات پیدا ہوئے جن کا ذکر لبنان کے مستعفی وزیر اعظم سعد الحریری نے یوں کیا " بیروت کے وسط میں جاری تنازعات جلاؤ گھیراؤ اور تخریب کاری کا منظر ایک پاگل پن، مشکوک اور ناقابل قبول منظر ہے جس سے شہری امن کو خطرہ ہے اور جس کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ بیروت کو ملک کا امن تباہ کرنے کے لیے سیاسی اکھاڑہ نہیں بننے دیں گے۔"
ادھر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے لبنان کی سرحد پر دفاعی نظام کی تنصیب شروع کر دی ہے۔ اسرائیلی فوجی ترجمان کے مطابق شمالی اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کو روکنے کے لیے حساس آلات نصب کرنے شروع کر دیے ہیں۔ ابھی تک اسرائیلی کارروائی کے خلاف لبنانی فوج یا حزب اللہ کا ردعمل سامنے نہیں آیا، نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار راجرکوہن کی ایک رپورٹ کے مطابق " عرب بہار " بیروت میں لوٹ آئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے عرب انقلاب اور تبدیلیوں کی قندیل بیروت میں روشن ہوچکی ہے جس نے شدید اقتصادی اور سیاسی بحران کی شکل اختیارکر لی ہے۔ پرتشدد واقعات کے باوجود لبنانی عوام یہ تہیہ کرچکے ہیں کہ وہ ظلم و جبر کے سامنے کسی طور سرنڈر نہیں کریں گے۔ لبنانی بحران کو سماجی اور معاشی محرومیوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ حزب اللہ کے سربراہ نصر اللہ نے مظاہرین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ریت پر ایک لکیرکھینچ دی ہے جو لبنانی حکومت کے مستقبل کے حوالے سے اہم ہے۔ عرب دنیا کے لیے لبنان کی صورتحال پر ایک بڑا فیصلہ کرنے کے لیے وقت بہت کم رہ گیا ہے جب کہ اسرائیل اس تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال پر کریک ڈاؤن کے لیے پَر تول رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مظاہرے احتجاج لبنان کا داخلی معاملہ ہیں بلکہ اس کا تعلق بڑے مغربی ملکوں کی معیشت سے بھی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام سے جڑی ہوئی ہے۔ پھر اسرائیل کی یہ جرأت کیسے کہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی تیاری کرے۔ کیا مغربی ملک جو آزاد اور خودمختار ممالک کی آزادی اور خود مختاری کے دعوے کرتے ہیں اسرائیل کی لبنان کے خلاف ہونے والی ان فوجی تیاریوں سے واقف ہیں اگر واقف ہیں تو اس کے خلاف کیا اقدامات کر رہے ہیں؟
لبنان کے عوام ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اورکرپشن کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، یہ ان کا حق ہے اس قسم کے احتجاج صرف لبنان ہی میں نہیں بلکہ عراق سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں ہو رہے ہیں اور متاثرہ ملکوں کے حکمران عوامی دباؤ کے پیش نظر اپنے عہدوں سے مستعفی ہو رہے ہیں کیونکہ مہنگائی اور کرپشن کا ان کے پاس کوئی علاج نہیں یہ بیماریاں سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ سرمایہ دارانہ معیشت کے حامل اور سرپرست ملکوں کو اب یہ خوف لاحق ہو رہا ہے کہ مہنگائی اور کرپشن کے ستائے ہوئے عوام کہیں مہنگائی اورکرپشن کے ذمے دار سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کہیں میدان میں نہ اتر آئیں کیونکہ اس کے لیے آج حالات بہت سازگار ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ایک عالمی سازش کے تحت سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے سوشلسٹ ملکوں خاص طور پر بڑے سوشلسٹ ملکوں روس اور چین کا شیرازہ بکھیر دیا اور سوشلسٹ نظام کو ناکام ثابت کرکے اسے ساری دنیا سے نکال باہر کیا۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی اندرونی اور بیرونی خرابیوں اور تضادات کی وجہ سے ناکام ہو رہا ہے جس کا مطالعہ عراق، لبنان سمیت ان کئی ملکوں میں کیا جاسکتا ہے جو عوامی احتجاج کی زد میں ہیں۔ یہ بات سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس نظام میں مہنگائی، کرپشن سمیت بے شمار برائیاں ناگزیر ہیں جن کا کوئی علاج نہیں۔ لبنان میں ہونے والے پر تشدد احتجاج کو دبانے کچلنے کے لیے سرمایہ دار ملک اسرائیل کے ذریعے اس بہت بڑے اور پرتشدد احتجاج کو کچلنا چاہتے ہیں کیونکہ بڑھتے اور پھیلتے ہوئے احتجاج کا رخ مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کے اصل ذمے دار سرمایہ دارانہ نظام کی طرف نہ ہوجائے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں اور اصلیت کو صرف دنیا کی ترقی پسند طاقتیں اور جماعتیں ہی سمجھ سکتی ہیں، لیکن افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس تضاد کو بڑھانے اور تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے والی طاقتیں مایوسی، خلفشار اور بزدلی کا شکار ہیں حالانکہ وہ اس حقیقت کو جانتی ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت اپنی عمر پوری کر چکا ہے اب اسے زیادہ دیر آئی سی یو میں نہیں رکھا جاسکتا۔ ہوسکتا ہے سوشل ازم کے نام لیوا اپنی ذمے داریاں بوجوہ پوری نہ کرسکیں لیکن مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کے مخالفین متحد ہوجائیں اگر ایسا ہوا تو 7 ارب عوام کو سرمایہ دارانہ نظام کے عذابوں سے نجات مل سکتی ہے۔