دنیا کی تاریخ میں ایک سے بڑی ایک، خطرناک وبا آئی اوربڑے پیمانے پرجانی نقصان بھی ہوا لیکن انسان کو اب جس وبا کا سامنا ہے اس کی خطرناکی کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخ میں جلد یا بہ دیرہربیماری کا علاج دریافت کر لیا گیا سوائے کشمیر کے۔ لیکن آج کی دنیا پر مسلط وبا کورونا کی خطرناکی کا عالم یہ ہے کہ اس کے متاثرین اس تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ انسان سنبھل نہیں پا رہا ہے۔ اس وبا کو آئے ہوئے اب تین ماہ ہو رہے ہیں اور اس کے متاثرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے اور ہزاروں انسان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ساری دنیا کے ماہرین طب دن رات اس مرض کی ویکسین کی تیاری میں جٹے ہوئے ہیں لیکن اسے انسان کی بدقسمتی کہیں یا انسان کی بے بسی کہ اب تک اس وبا کی ویکسین تیار نہ ہوسکی اور انسان بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا ہوا ہے۔
ان تین مہینوں میں جو کچھ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ احتیاطی تدابیر ڈھونڈلی گئی ہیں جن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، دنیا کی طبقاتی تقسیم کے مضر اثرات یہاں بھی دیکھے جاسکتے ہیں، جو طبقات احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے سے قاصر ہیں وہ کورونا کا ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں۔ پوش بستیوں میں کورونا جانے سے گریزاں ہے اور غریبوں کی بستیوں پر آسانی سے چھاتا چلا جا رہا ہے۔ جانی نقصان بھی انھی بستیوں میں ہو رہا ہے یعنی برق گرتی ہے تو بے چارے غریبوں پر ہی۔
امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک حیرت اور خوف سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن احتیاطی تدابیرکے علاوہ علاج کے حوالے سے وہ کر نہیں پا رہے ہیں۔ بلاشبہ انسان نے زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں ریکارڈ ترقی کی ہے لیکن طب کے شعبے میں وہ مکمل برتری حاصل نہ کرسکا۔ انسان کی ترقی کا عالم یہ ہے کہ وہ چاند پر جاکرآگیا جس کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن وہ کورونا جیسی وائرل بیماری پر قابو نہ پاسکا۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا جیسی سپر پاور اس حوالے سے مکمل بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ اگرچہ امریکا سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک کورونا کی ویکسین بنانے کی پوری کوششیں کر رہے ہیں لیکن اب تک یعنی تین ماہمیں وہ اس حوالے سے کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔
اس حوالے سے جو کچھ کامیابی حاصل ہوسکی ہے، وہ بس اتنی ہے کہ جو علاقے زیادہ متاثر ہیں، ان میں لاک ڈاؤن کیا جا رہا ہے یعنی لوگوں کا ملنا ملانا بند کردیا گیا ہے، ہو سکتا ہے اس تدبیر سے کچھ فائدہ ہو رہا ہو لیکن احتیاط اور علاج میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں کے درمیان اس قدر بدترین اختلافات ہیں کہ وہ احتیاط میں بھی کیڑے نکال رہے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں بھی سیاستدان ہیں اور وہ مل جل کر اس وبا کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن غالباً پاکستان واحد ملک ہے جہاں لاک ڈاؤن پر بھی اختلاف رائے ہے۔
بعض بیماریوں میں احتیاط کی بہت ضرورت ہوتی ہے اور اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے کورونا بھی ایک ایسی بیماری ہے جس میں احتیاط کی اہمیت بھی ہے اور ضرورت بھی لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہیں کہ اس پر بھی سخت اختلاف رائے ہے اور اس حوالے سے "خواص" دو حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ ہمارے سندھ کے وزیر اعلیٰ نے فرمایا ہے کہ جہاں کورونا کے زیادہ کیسز ہوں گے، وہ علاقے ہم بند کردیں گے۔ یہ ایک احتیاطی تدبیر ہے جس کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن ہمارے محترمین یہاں بھی تنقید کے نشتر چلانے سے گریز نہیں کرتے۔
لاک ڈاؤن کوئی نئی اصطلاح نہیں لیکن چونکہ اس اصطلاح کا استعمال بہت کم کیا جاتا ہے اس لیے عام آدمی اسے سمجھ نہیں پاتا۔ اس لیے عوام کی معلومات کے لیے لاک ڈاؤن کی زیادہ سے زیادہ وضاحت کی ضرورت ہے لاک ڈاؤن یا علاقوں کو بند کرنا اس بیماری کی ضرورت ہے ہمارے علما نے لاک ڈاؤن کا مطلب سماجی دوری نکالا ہے۔ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے کہ عام آدمی کیا خاص آدمی بھی اس اصطلاح کا مطلب نہیں سمجھ سکتا، لہٰذا بڑے پیمانے پر سماجی دوری کے مطلب سے عوام کو آگاہ کیا جائے تاکہ عوام اسے سمجھ سکیں اور اس پر عمل کرسکیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ عالمی سطح پر تمام اہم ممالک کورونا وائرس کے علاج کے لیے متحد ہوکرکام کریں خاص طور پر ترقی یافتہ ملکوں کے طبی ماہرین مل جل کر اس وبا کا علاج ڈھونڈیں، بلاشبہ کورونا ایک خطرناک وبا سے لیکن یہ ممکن ہے کہ اس کا علاج عالمی سطح پر ماہرین طب تلاش کریں، اس حوالے سے کم تر یا برترکی تفریق ایک احمقانہ فعل کے علاوہ کچھ نہیں۔