Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mustaqbil Ghareeb Awam Ka Ho

Mustaqbil Ghareeb Awam Ka Ho

اپوزیشن ایڑھی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود حکومت کو ہٹانے میں ناکام رہی ہے۔ اب ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں کہ ان کی غلطیوں سے ہماری تحریک ناکام ہو رہی ہے۔ پی ڈی ایم نے اپنی استطاعت سے زیادہ کوششیں کیں لیکن ابھی انھیں کچھ حاصل نہ ہو سکا۔

ادھر وزیر اعظم عمران خان پی ڈی ایم کی جماعتوں کو چیلنج کر رہے ہیں کہ ہمت اور اہلیت ہے تو پارلیمنٹ میں آؤ اور تحریک عدم اعتماد لاؤ تو ہم گھر جانے کے لیے تیار ہیں۔ 13 تاریخ کو پی ڈی ایم نے یوم فتح منانے کا پلان کیا تھا لیکن ایسا ہونے کی امید مجھے دکھائی نہیں دیتی۔

اپوزیشن کے یہ گروہ بڑے پر امید تھے کہ بس ایک قدم بڑھاؤ اور اقتدار سے گلے مل لو، لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے، یہاں تو صرف اور صرف ایک خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچ جائیں لیکن وزیر اعظم ہاؤس پہنچنے کی جتنی جلدی ہے، وزیر اعظم ہاؤس اتنا ہی دور ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ اس امر کی عکاس ہے کہ سیاستدانوں کا اصل مسئلہ حصول اقتدار نہیں رہا بلکہ اقتدار میں آ کر لوٹ مارکرنا اور کمائے گئے اربوں روپوں کو بچانا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان درپے ہے کہ سب کچھ ہوتا رہے گا لیکن لوٹی ہوئی رقم کسی قیمت پر چھوڑی نہیں جائے گی۔

عمران خان پی ڈی ایم کا دشمن ہے نہ پی ڈی ایم کو عمران خان سے کوئی پرخاش ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ وزیر اعظم "ریکوری" سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ اشرافیہ نے جتنی بھاری رقوم جمع کر لی ہیں، اس سے وہی نہیں ان کی آل اولاد بھی اگلے دس سال تک اقتدار کے مزے لوٹ سکتی ہے اور شاہوں کی طرح زندگی گزار سکتی ہے اور گزار رہی ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ مہنگائی نے عوام کی ایک بڑی تعداد کو موجودہ حکومت سے بدظن کر دیا ہے اور ہمارا خیال بھی یہی ہے کہ مہنگائی سے عوام پریشان ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومت پبلسٹی کے حوالے سے بہت نااہل ثابت ہو رہی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم موثر انداز میں اپنے حق میں پروپیگنڈے کر رہی ہے، عمران خان ایسے موثر انداز میں اپنی حکومت کے حق میں پروپیگنڈا نہیں کر سکتا لیکن وہ جو کچھ کر سکتا ہے وہ بھی نہ جانے کیوں نہیں کر رہا ہے۔ یعنی عوام کے درمیان کیوں نہیں جا رہا۔

سوال یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے عمران خان جو جلسے کرتے رہے ہیں، ان میں لاکھوں عوام شریک ہوتے تھے حیرت ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان نے عوام سے براہ راست رابطے (جلسے) کیوں ترک کر دیے۔ کسی بھی مقبول لیڈرکے لیے ہمیشہ عوام کے درمیان رہنا ضروری ہے۔ عمران خان نے عوام کے قریب رہنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ جب کہ عمران خان پر کرپشن کا ایک بھی الزام نہیں ہے؟ عمران خان کا ماضی بھی کرپشن کے حوالے سے بے داغ ہے پھر کسی قسم کا احساس کمتری اگر ہے تو کیوں ہے؟

اپنی قلمی زندگی میں جو چالیس سال پر مشتمل ہے ہم نے کبھی کسی حکمران کی حمایت نہیں کی اس کی وجہ یہ تھی کہ ملک پر ہمیشہ ایلیٹ حکمران رہی ہے 72 سال میں پہلی بار ایک مڈل کلاسر اقتدار میں آیا ہے اور ایلیٹ حزب اختلاف بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عمران کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلسل عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں ہمارے اس رویے پر ہمارے بعض دانشور دوستوں کو اعتراض ہے لیکن ہمارے خیال میں اگر اشرافیہ اپنے حربوں کے ذریعے حکومت کو ناکام نہیں بنا سکتی تو آیندہ ایک دو سال میں عمران خان غریب طبقات کو اوپر لانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں اور اس سے زیادہ تعداد میں کسان رہتے ہیں۔ جو عمران خان کو پسند کرتے ہیں کیا عمران خان نے مزدوروں اور کسانوں میں جانے کی کوشش کی؟ یہ اتنی بڑی غلطی ہے کہ حکومت اس کا ازالہ نہیں کر سکتی۔ ملک میں کورونا جیسی قاتل بیماری نے بہت مالی اور جانی نقصان پہنچایا ہے، حکومت کا فرض تھا کہ وہ عوام کو بار بار ایس او پیز پر عمل کرنے کی ترغیب دیتی اگر عوام اس ترغیب پر بھی دھیان نہیں دیتے تو قانون کے ذریعے انھیں ایس او پیز پر عملدرآمد پر مجبورکرتی کیونکہ جو بھاری جانی نقصان ہو رہا ہے وہ عوام کا ہو رہا ہے۔

عمران خان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ مزدوروں (تعلیم یافتہ) کو اپنی پارٹی میں مزدوروں اورکسانوں کو لائیں اسی طرح تعلیم یافتہ غریب طبقات کو آگے لائیں اور ایک ایسی پالیسی بنائیں کہ مستقبل میں تعلیم یافتہ غریب، کسان اور مزدور حکمرانوں کی جگہ لے سکیں۔ یہ کام اشرافیہ زندگی بھر نہیں کرے گی وہ تو اپنی آل اولاد کو ولی عہد بنانے کی کامیاب پالیسی پر عمل درآمد کر رہی ہے سیاست کے میدان میں ہر طرف شہزادے شہزادیاں چھائے ہوئے ہیں اور ولی عہدی کی جگہوں پر براجمان ہیں۔ کیا عمران خان اس بنیادی بات کو سمجھ سکتے ہیں؟