بلاشبہ وزارت داخلہ نے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے مسلح ونگز پر پابندی لگاکر ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔ اصل میں یہ ونگز سیاسی جماعتوں کی غیر علانیہ فوج ہے اور پاکستان کی تاریخ میں ونگز نے جو کارنامے انجام دیے ہیں وہ قابل مذمت ہیں۔
ہمارے ملک میں ونگز کی ایک ناپسندیدہ تعریف اور ریکارڈ ہے اصل میں ہماری بعض عوامی نمایندہ جماعتیں تشدد کو اپنی پالیسی کا حصہ سمجھتی ہیں کیونکہ بلیک میل کرنے کے لیے ایسے ونگز ہی سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ ہماری اجتماعی بدقسمتی ہے کہ مسلح ونگز تشدد کو فروغ دینے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک کی ایلیٹ قیادت سمجھتی ہے کہ مخالفین کو بلیک میل کرنے اور مخالفین کی آواز دبانے کے لیے مسلح ونگز ہی اہم رول ادا کرتے ہیں۔
ہماری سیاسی قیادت کا بڑا حصہ چونکہ ایلیٹ پر مشتمل ہے سو ایلیٹ یا اشرافیہ فطرتاً دوسرے گروہوں خاص طور پر نظریاتی مخالفین کو دبا کر رکھنے کے لیے اس قسم کے مسلح ونگز بناتی ہیں، اس حوالے سے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک کی بعض اشرافیائی پارٹی اور مذہبی جماعتوں نے اپنے نظریاتی مخالفین کو دبا کر رکھنے کے لیے اس قسم کے ونگز بنا رکھے ہیں جن کا اہم کام نظریاتی مخالفین کو دبا کر رکھنا ہوتا ہے اور یہ ونگز خون خرابوں میں بھی آگے آگے ہوتے ہیں۔
وفاقی وزارت خارجہ نے ان جماعتوں کی ملیشیا کے خلاف صوبوں کو موثر اقدامات کرنے کی ہدایت کردی ہے، وزارت داخلہ نے صوبائی حکومتوں کو مراسلہ بھجوا دیا ہے، مراسلے کے مطابق مختلف مذہبی جماعتوں نے اپنے ونگز بنا رکھے ہیں۔ وفاقی وزارت نے قانون کی خلاف ورزی پر وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ مختلف جماعتوں نے ملیشیا مسلح افواج جیسی وردی اور رینکس لگائے ہیں۔
ملیشیا بنانا اسٹیٹ کے آرٹیکل 258 اور نیشنل ایکشن پلان کے تیسرے نکتے کی خلاف ورزی ہے۔ مسلح ونگز کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو سیکیورٹی صورتحال اور خراب ہوسکتی ہے جس سے دنیا میں ملک کا منفی تاثر ابھرے گا۔ ایسی تنظیمیں غلط مثال قائم کر رہی ہیں۔ صوبائی حکومتیں اس حوالے سے فوری نوٹس لیں۔ وفاقی حکومت ہر طرح مدد کے لیے تیار ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اس حوالے سے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے کہا ہے پاکستان کے آئین و قانون کے تحت کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت میں مسلح ونگز رکھنے کی اجازت نہیں، اگر کسی مذہبی اور سیاسی جماعت کے پاس ایسے ونگز نہیں ہیں تو اسے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ملک میں کورونا کی موجودہ صورتحال میں جلسے جلوسوں کا ماحول نہیں ہے، وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن کے جلسوں سے نہیں گھبراتے اپوزیشن رہنماؤں کو بحیثیت قومی لیڈر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت جلسے جلوس نہیں کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے جو بھی قانون کو ہاتھ میں لے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد امن و امان برقرار رکھنا صوبوں کی ذمے داری ہے۔ تمام صوبائی وزرائے داخلہ کو اس حوالے سے خط لکھا گیا ہے۔ وہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں پر نظر رکھیں۔ تمام جماعتوں نے مل کر جو نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا اس کے پیرا نمبر تھری اور آرٹیکل نمبر 256 میں بھی یہی ہے کہ کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت میں مسلح ونگز بنانا ممنوع ہے، اگرکسی نے پرائیویٹ آرمی بنائی ہوئی ہے تو اسے آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
نوٹیفکیشن میں کسی جماعت کو ٹارگٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن کو جلسے کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ اقدام ملک کے حالات کو پرامن رکھنے کے لیے ضروری تھا لیکن یہاں ایک اہم بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ملک کی کئی طلبا تنظیموں میں بھی مسلح ونگز موجود ہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ان ونگز کا کنٹرول سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، جو ان ونگز کی مالی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ اس حوالے سے اس حقیقت کی یاد دہانی ضروری ہے کہ ماضی میں اور اب بھی ان ونگز میں پرتشدد کارروائیاں عام ہیں جن میں انسانی جانیں ضایع ہوتی ہیں۔
ہم جب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو وہاں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ طلبا ونگز مسلح ہوتے ہیں اور مخالفین خاص طور پر نظریاتی مخالفین کے ساتھ ان کی ہمیشہ لڑائی رہتی ہے اور یہ لڑائیاں آخرکار خون خرابے تک چلی جاتی ہیں۔ طلبا ہمارے معاشرے کا نہ صرف ایک تعلیم یافتہ حصہ ہوتے ہیں بلکہ معاشرے خاص طور پر غریب طبقات کو تعلیم سے آراستہ کرکے ان کے مستقبل سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ایلیٹ سے اسلحہ حاصل کرکے مخالفین کے خلاف دھڑلے سے استعمال کرتے ہیں۔ ان ملک اور تعلیم دشمنوں نے خواتین طلبا کو بھی اپنی ان جنگجو تنظیموں میں شامل کر رکھا ہے۔
اس حوالے سے اصل مسئلہ مذہبی جماعتوں کا ہے کیونکہ ان معصوم طلبا کو مذہب اور فرقوں کے نام پر منظم کیا جاتا ہے اور جہاں بدقسمتی سے فرقہ وارانہ لڑائی ہوتی ہے اسی طلبا ونگز کے کارکنوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ سیاست عام تھی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج بھی بعض مذہبی جماعت ایسی ہیں جن کے مسلح ونگز ہیں۔ کراچی کے باسیوں نے اپنی آنکھوں سے ان ونگز اور ان کی انتہا پسندی کو دیکھا ہے یہ ذمے داری حکومت کی ہوتی ہے کہ وہ ایسے ونگز پر پابندی لگا دے۔