اسلامی تنظیم او آئی سی کے رابطہ گروپ نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس، سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں۔
رابطہ گروپ کا اجلاس پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی درخواست پر نیویارک میں ہوا۔ تنازعہ کشمیر پر اپنے موقف کی توثیق کرتے ہوئے رابطہ گروپ نے اقوام متحدہ کے سربراہ سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت پر 5اگست 2019ء کو اور اس کے بعد اٹھائے گئے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو واپس لینے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے دباؤ ڈالیں۔
پاکستان کی طرف سے تحریک پر اقوام متحدہ ہمیشہ اشک شوئی کی کوشش کرتی ہے او آئی سی بے چاری خود ایک مظلوم تنظیم ہے، وہ اگر اقوام متحدہ سے کوئی درخواست کشمیر کے حوالے سے کرے گی تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ وہ میڈیا میں آجائے گی باقی اللہ اللہ خیر صلہ۔ موجودہ دنیا طاقت کی دنیا ہے یہاں طاقتور کی بات سنی جاتی ہے کمزور کی بات ہوا میں اڑا دی جاتی ہے۔ پاکستان اور او آئی سی کا شمار کمزور ملکوں اور کمزور تنظیموں میں ہوتا ہے لہٰذا انھیں بات کرنے کا حق تو ہے مطالبے کرنے کا حق بھی ہے لیکن ان پر عملدرآمد کرانے کا حق نہیں ہے۔
بدقسمتی سے مسلمان ملکوں میں جتنے ادارے ہیں، ان کا کام مسلم ملکوں کے برننگ ایشوز پر ایک بیان داغ دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ کشمیر کا مسئلہ 70سال سے زیادہ پرانا ہے، اس پورے دور میں کشمیری عوام نے تو بے بہا قربانیاں دیں لیکن مسلم ملکوں کی طرف سے اس مسئلے پر کوئی موثر اور عملی کارروائی نہیں کی گئی اس کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک یہ کہ مسلم ملکوں کی بڑی تعداد امریکا کی غلام بنی ہوئی ہے اور امریکا کے کسی متنازعہ مسئلے پر امریکا کے خلاف جا ہی نہیں سکتی۔ کشمیر پر بھارت قابض ہے اور فلسطین پر اسرائیل قابض ہے۔
بھارت اور اسرائیل کے خلاف بدقسمتی سے مسلم ممالک ایک حرف شکایت زبان پر نہیں لاتے، پتہ نہیں ان ملکوں کے خلاف امریکا نے مسلمان ملکوں کوکون سی گیدڑ سنگھی سنگھائی ہے ان دو مسلم ملکوں کے خلاف امریکا اس قدر الرجک ہے کہ وہ کسی شکایت کے حوالے سے ان دو ملکوں کا نام سننا پسند نہیں کرتا۔
دنیا میں مسلمانوں کی آبادی کی لگ بھگ ایک چوتھائی ہے لیکن یہ آبادی مسلم دشمن ملکوں کے ساتھ کوئی بامعنی ایکشن لینے کے لیے تیار نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں جس کی وجہ سے مظلوم مسلم ملکوں کے لیے خاموشی اور صبر کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔ پاکستان بھی ایٹمی ملک ہے لیکن ایک ایٹمی ملک ساری ایٹمی دنیا کے خلاف کیا کر سکتا ہے۔
یہ وہ مجبوری ہے جس نے مسلم دنیا کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ بھارت کا تعلق ایشیا سے ہے آبادی کے حوالے سے بھارت دنیا کا چین کے بعد سب سے بڑا ملک ہے لیکن اس کی ٹکراؤ اور تصادم کی پالیسی نے کروڑوں غریب عوام کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ بھارت کے پاکستان کے علاوہ چین سے بھی تعلقات بہت تلخ ہیں۔
بھارت کی ایسی احمقانہ پالیسی نے جنوبی ایشیا کی ترقی کو روک رکھا ہے اگر بھارت پاکستان اور چین کے ساتھ دشمنی کی پالیسی چھوڑ کر دوستانہ تعلقات کو فروغ دے تو ایشیا کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے اور برصغیر کے علاوہ چین اور جنوبی ایشیا کے عوام ترقی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔ یہ عوام اور خواص کی بڑی تمنائیں ہیں لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ تمنائیں بر نہیں آ رہی ہیں۔
اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بھارت میں ایک ایسی مذہبی انتہا پسند جماعت بی جے پی برسر اقتدار ہے جو پاکستان اور چین کے ساتھ اپنے دیرینہ مسائل کو حل کرکے ایشیا کے عوام کو خوشحالی کی طرف لے جاسکتی ہے لیکن حکمرانوں کی ناروا ضدکی وجہ سے یہ پورا خطہ ترقی سے دور پسماندگی کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے اور اس کی ساری ذمے داری متعلقہ ملکوں پر عائد ہوتی ہے مذہبی دشمنی نے انسانوں کو پاگل کردیا ہے دونوں ملکوں میں ہم سمیت ہزاروں اہل فکر بار بار بھارتی حکمرانوں اور اسرائیل کے حکمرانوں کو واسطہ دے رہے ہیں کہ ایشیا کے دو ارب سے زیادہ عوام کے بہتر مستقبل کے لیے اپنے مسائل پرامن طریقوں سے حل کریں لیکن ہماری صدا، صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔
بھارت اور پاکستان سمیت علاقے کے عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں غریب اور پسماندہ ملک اپنے وسائل کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کر رہے ہیں۔ ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ ہونے والا اربوں روپیہ اگر عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جائے تو اس پورے خطے سے غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے لیکن ملک میں فیصلہ سازی کا اختیار ان لوگوں کے پاس ہے جن کی سرشت میں مذہبی منافرت اور جنگوں کے علاوہ کچھ نہیں۔
بھارت میں ہزاروں مفکر، ہزاروں دانشور، ہزاروں ادیب، ہزاروں شاعر، ہزاروں فنکار ہیں جو امن اورخوشحالی عوام کی بہتر زندگی کے حامی ہیں لیکن کیا انھیں سانپ سونگھ گیا ہے کہ اس اہم ترین مسئلے پر بولتے نہیں۔ بولنے کا وقت بھی چلا گیا اب عمل کا وقت ہے اس جنگ زدہ دنیا سے جنگوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ان مہاتماؤں کو سڑکوں پر آنا ہوگا ہمارے ادیبوں، شاعروں کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے قلم کو جنگوں اور جنگ بازوں کے خلاف استعمال کریں۔
پاکستان اور بھارت ہزاروں سال سے ایک ہی ملک تھے اور اس ملک میں رہنے والے پرامن زندگی گزار رہے تھے، پھر کیا ہوا کہ یہ عوام ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ یہ ملک کی تقسیم کے ساتھ ساتھ نظریات خصوصاً مذہبی تعصب کا کارنامہ ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارا دانشور طبقہ جانتا ہے کہ دنیا کا ہر انسان آدم کی اولاد ہے اور آدم کو ہر مذہب کے پیروکارکسی نہ کسی حوالے سے مانتے ہیں۔ انسانیت ایک مقدس نظریہ ہے کیا دنیا کے عوام فالتو نظریات کو ترک کرکے انسانیت کے بندھن میں نہیں بندھ سکتے؟