ایک خبرکے مطابق سیاسی کارکن اب سیاست میں بالکل دلچسپی نہیں لے رہے ہیں، یہ خبر درست ہے لیکن اس حوالے سے ادھوری ہے کہ خبری سروے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ سیاسی کارکن اب سیاست میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے ہیں؟
اس سوال کے جواب سے پہلے اس بات کی وضاحت یا انکشاف ضروری ہے کہ اب سیاستدانوں کو ان سیاسی کارکنوں کی قطعی ضرورت ہے نہ ان کی سیاست سے کوئی سروکار، جن کا بنیادی مقصد سیاست اور جمہوریت کے نام پر اربوں روپے کی کرپشن ہے۔ ماضی میں پارٹیاں لبرل ہوتی تھیں، قدامت پرست یا ترقی پسند۔ ہر جماعت کا ایک عوامی اور ترقیاتی ایجنڈہ ہوتا تھا، کارکن اس ایجنڈے کے مطابق آدھی آدھی رات تک کام کرتے تھے، ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ کسی جماعت کے پاس کوئی عوامی ایجنڈہ ہے نہ وہ کارکن ہیں جو اپنی پارٹی کے ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے جان لڑا دیتے تھے، انھیں اس کی بھی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ گھر میں روٹی ہے یا نہیں، میں نے ایسے دیوانے سیاسی کارکن بھی دیکھے ہیں جو عوامی بستیوں میں رہتے تھے اور آٹھ آٹھ دن اپنے گھروں کو نہیں جاتے تھے، عوام ان کارکنوں کے ساتھ اپنے سگے بھائیوں کی طرح پیش آتے تھے۔
وہ دور چلا گیا اب کرپٹ سیاستدانوں کا دور ہے اور سیاسی کارکن یا تو پیڈ ہوتے ہیں یا دیہاڑی دار، ایسے ابن الوقت کارکنوں کا کام سیاسی وڈیروں کی خدمت کے علاوہ کچھ نہیں، لیڈر جب باہر نکلتا ہے تو لیڈر کی گاڑی کو گلاب کے پھولوں سے ڈھک دیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک محترم لیڈر بیمار تھے تو ہم نے یہ عجیب بات دیکھی کہ لیڈر کی قیمتی گاڑی کو گلابوں سے ڈھک دیا گیا۔ یہ وہ لیڈر تھے جن پر بھاری کرپشن کے الزامات میں کیسز چل رہے تھے جہاں تک سیاسی سرگرمیوں کا تعلق ہے، لیڈر کی گاڑی کے آگے زندہ باد کے نعرے لگانے کے علاوہ کچھ نہیں۔
ماضی میں سیاسی کارکنوں کی تربیت کے لیے اسٹڈی سرکلز چلائے جاتے تھے جن میں میچور دانشور سیاسی کارکنوں کی تربیت کرتے تھے۔ ماہانہ جائزہ میٹنگوں کے علاوہ سالانہ کانگریس ہوا کرتی تھی جس میں پارٹی کے کام کا جائزہ لے کر آیندہ سال کے لیے اہداف مقرر کیے جاتے تھے۔ یہ وہ کام تھے جو سیاسی کارکن اپنی ذمے داری سمجھ کر ادا کرتے تھے، کارکنوں کی ذمے داریاں بانٹی جاتی تھیں اگر کوئی جلسہ کیا جاتا تو اس کا بہترین انتظام کارکن اس خوبی سے کرتے جس سے پارٹی ڈسپلن کا اندازہ ہوتا تھا پریس ریلیزدینے والے آدھی آدھی رات تک اخباروں کے دفتر جاتے تھے۔
سیاسی کارکن اب اپنی سیاسی ذمے داریوں سے اس لیے آزاد ہیں کہ اس کے سامنے پارٹی کا کوئی منشور، کوئی ایجنڈہ ہی نہیں ہوتا۔ ہر روز "ضرورت حاضرہ" کے مطابق زبانی ایجنڈہ کارکنوں کو حکم کی شکل میں دیا جاتا ہے۔ ماضی میں کارکن پیدل یا بسوں میں بیٹھ کر سیاسی ڈیوٹیاں انجام دیتے تھے، اب صورتحال یہ ہے کہ ایک ایک لیڈر کے بنگلے پر دس دس نئی نئی گاڑیاں معہ ڈرائیورز کھڑی ہوتی ہیں۔
"کارکن" ٹھاٹھ سے ان گاڑیوں میں بیٹھ کر اپنی سیاسی ذمے داریاں ادا کرتے ہیں اور یہ سیاسی ذمے داریاں دراصل صاحب یا بی بی کے نجی کام ہوتے ہیں جن میں گاڑیوں کے علاوہ سرکاری پٹرول بھی پانی کی طرح استعمال کیا جاتا تھا۔ جب سیاست کا حال یہ ہو تو سیاسی کارکنوں کا حال اس سے مختلف کیسے ہو سکتا ہے؟
یہ غالباً ستر کی دہائی کی بات ہے۔ ہمارے ایک سیاسی کارکن جن کا نام محمد زبیر تھا، موصوف نے سیاسی سرگرمیوں کی بھیڑ میں شادی کو بھلا بیٹھے اور جب یاد آیا اور فرصت ملی تو سر اور داڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے۔ سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہوتی تھی کہ وہ ایک دوسرے پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔
ماضی کے بنگلہ دیش کے سیاسی کارکنوں کی کارکردگی کا حال یہ تھا کہ وہ سیاسی ذمے داریوں کا مذہبی ذمے داریوں کی طرح احترام کرتے تھے۔ ایک بات جو سیاسی کارکنوں کے ذہنوں میں بٹھا دی جاتی وہ یہ تھی کہ اس فرسودہ جاگیردارانہ نظام کو بدلنا ہے۔ یہ سیاسی کارکنوں کا بڑا ٹارگٹ ہوتا تھا جس کے حصول کے لیے سیاسی کارکن اپنی ساری توانائیاں لگا دیتے تھے۔ ماضی میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں اور جیلیں اس قدر عام تھیں کہ اکثر کارکنوں کا سفری بیگ ہمیشہ تیار رہتا۔
سیاسی کارکن ہر جمہوری ملک میں فعال ہوتے ہیں، اور ان کی قربانیاں ہی جمہوریت کے پودے کو سینچتی ہیں۔ پاکستان میں ہی سیکڑوں ایسے کارکن موجود تھے جن کا اوڑھنا بچھونا "کام" تھا، پارٹی کارکن کام رات اور دن سردی اور دھوپ کو دیکھے بغیر ہر وقت پارٹی کام میں مشغول ہیں۔ وہ سیاسی کارکن جن کی محنت اور قربانیوں سے ملک سنورتے ہیں لیکن کون ان کو یاد رکھتا ہے۔
1970 میں ڈھاکہ میں نیپ کی کانفرنس تھی۔ کانفرنس میں نوجوان طلبا و طالبات ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے کہ اچانک بارش شروع ہوگئی، بارش بھی موسلا دھار۔ پلٹن میدان بھرا ہوا تھا، کارکن ہر صف میں موجود۔ کیا مجال کے بھگدڑ مچ جائے، دو گھنٹے بارش میں بھیگتے رہے اور عوام کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کارکن موجود رہے۔