Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Rawadari Ki Zaroorat

Rawadari Ki Zaroorat

ہم دور حاضر کو تاریخ کا ترقی یافتہ دور کہتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے ماضی کی دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے انسان چاند پر ہو آیا ہے اور ایک مشن جو مریخ کی طرف بھیجا گیا تھا وہ زمین اور مریخ کے درمیان پرواز کر رہا ہے جس دن یہ مشن مریخ پر پہنچ جائے گا وہ دن انسان کی سربلندی کی تاریخ کا ایک روشن ترین دن ہوگا۔

کیونکہ انسان ایک دور ترین سیارے پر پہنچ کر اپنی کامیابی کا پرچم لہرائے گا۔ ابتدائی زندگی سے ہی انسان کائنات کے راز جاننے کی جستجو میں لگا ہوا ہے اسی جستجو نے اسے چاند پر پہنچایا اور یہی جستجو اب اسے مریخ کی طرف لے جا رہی ہے یہ کامیابیاں ایسی ہیں جن پر انسان فخر کرسکتا ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں اور بھی سیارے ہیں لیکن یہ سیارے ابھی تک انسان کی پہنچ سے دور ہیں لیکن خلائی تحقیق کا یہی عالم رہا تو ایک دن آئے گا جب انسان نظام شمسی کے دوسرے سیاروں پر بھی پہنچ جائے گا۔

یہ ترقی یقینا قابل فخر ہے لیکن اس حوالے سے ہماری جہالت بھی موجود ہے کہ جانے کتنا زمانہ گزر گیا انسان ابھی تک آسمان کے حوالے سے جہل میں مبتلا ہے اور ابھی تک اس کے رویے میں حیوانیت بھری ہوئی ہے۔ ایک تازہ واقعہ کے مطابق اسلاموفوبیا کے متاثرہ ایک جاہل نے ایک پاکستانی خاندان کے تین افراد کو قتل کردیا۔ معلوم ہوا کہ اس واردات کا اصل محرک اسلاموفوبیاہے۔

ہماری دنیا ترقی کی جس بلندی پر کھڑی ہے وہاں مذہب کے نام پر قتل و غارت کو بدترین المیے کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ مذہبی رواداری کو خصوصی اہمیت دی جائے اور اس حوالے سے ایک منظم پروگرام کے تحت کام کیا جائے۔ اکیسویں صدی میں مذہب کے نام پر قتل و غارت ایک المیہ ہی نہیں بلکہ جہل کی بدترین علامت ہے جس کا ہر قیمت پر ازالہ ضروری ہے۔

مشرقی ملکوں میں تو ابھی مذہب کے حوالے سے جہل کا بدترین کلچر موجود ہے لیکن جب ہم ترقی یافتہ مغربی دنیا میں مذہبی جہالت کے واقعات دیکھتے ہیں تو اس کی توجیح آسان نہیں رہتی۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مذہبی جہل ترقی یافتہ دنیا میں بھی موجود ہے اور اس کی پردہ پوشی کے لیے اسے اسلاموفوبیا کا نام دیا جا رہا ہے۔

ماضی میں مذہب کے نام پر قتل و غارت ایک عام سی بات مانی جاتی تھی لیکن اب جب کہ انسان مذہبی رواداری کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھ رہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی رواداری کے حوالے سے کچھ اور آگے بڑھا جائے اور مذہبی تقریبات میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی مخصوص طریقوں سے شرکت کو یقینی بنایا جائے تاکہ انسانوں کے درمیان مذہبی اجنبیت کا ازالہ کرکے مذہبی رواداری کے کلچر کو فروغ دیا جاسکے۔

اس حوالے سے رواداری کے لیے کچھ منطقی جواز بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً دنیا کے پہلے انسان آدمؑ کو ہر مذہب میں کسی نہ کسی حوالے سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ جب دنیا کے تمام انسانوں کو ہم آدمؑ کی اولاد مانتے ہیں تو اس حوالے سے ہر انسان ایک دوسرے کا بھائی بن جاتا ہے اس رشتے کو ایک منظم پروگرام کے تحت مضبوط بنایا جائے تو یہ رشتہ انسانوں کے درمیان محبت اور رواداری کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے موجودہ ماحول میں اس قسم کی کوششوں کو زیادہ پذیرائی ملنا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ مذہبی یکجہتی کے خلاف بہت منظم طاقتیں موجود ہیں اور متحرک بھی ہیں۔

ہر وہ کام جس کا مقصد نیک ہو جلد یا بدیر اپنا اثر دکھاتا ہے جب کہ آج کے ماحول میں مذہبی رواداری کی اہمیت بہت زیادہ ہے بلکہ ایک پرامن دنیا کے لیے مذہبی رواداری شرط اول کی حیثیت رکھتی ہے آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں مذہبی منافرت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس حقیقت کو عام کرنے کی ضرورت ہے بلاشبہ مذہبی منافرت ایک جیتی جاگتی برائی ہے لیکن اس حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان اس کلچر کی پذیرائی ناممکن تو نہیں البتہ ایک مشکل کام ضرور ہے۔

مذہب کے حوالے سے ہمارے نام الگ ہیں ہمارے کام الگ ہیں لیکن اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ہر وہ کام جس میں انسانی بھلائی کا پہلو موجود ہو اور محبت اور رواداری دیر سے ہی سہی اپنے آپ کو منوانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ منطقی دلیلوں کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ عام آدمی جو مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوتا ہے وہ بھی مدلل حوالوں سے نفرتوں کے کھڈے سے نکل کر رواداری کے پہاڑ پر آسکتا ہے۔

بعض اصول جو بہت پرانے اور انسانی فطرت کا حصہ بن جاتے ہیں ان میں تبدیلی بہت آہستہ آہستہ آتی ہے لیکن چونکہ اس کام میں خلوص نیت کی بڑی اہمیت ہے اور یہ خلوص نیت ہی ہوگا جو اس نیک کام یعنی مذہبی رواداری مذہبی یکجہتی کو جلد یا بدیر آگے بڑھائے گا اور خدائی رحمت بھی اس نیک کام میں مددگار ثابت ہوگی۔ اس حوالے سے اس حقیقت کو فی الوقت تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ تقسیم کی جڑیں بہت گہری ہیں فی الوقت ہم جو کچھ کرسکتے ہیں وہ ہے مذہبی رواداری، مذہبی یکجہتی، مذہبی دوری کی جگہ مذہبی قربت پیدا کرنا ہی بڑا کام ہے۔