جب تک دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام باقی ہے، دنیا کی کوئی طاقت کرپشن کو نہیں روک سکتی۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
سرمایہ دارانہ نظام خواہ کتنا ہی شفاف کیوں نہ ہو، قانون ساز ایسے راستے بنا جاتے ہیں جن میں سے کرپشن آسانی سے نکل جاتی ہے یا مراعات کے نام پر کرپشن کو قانون کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے۔
البتہ وائٹ کالرز کرائمز کو ترقی یافتہ ملکوں میں چھپانا آسان نہیں ہے کیونکہ تحقیقاتی ایجنسیوں میں تعینات افسر اور اہلکار جدید ترین ٹیکنالوجی سے ہی آگاہ نہیں ہوتے بلکہ وائٹ کالر کریمینلز کی نفسیات اور ذہنی کیفیت کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں، اس طرح جو شخص قانون کے شکنجے میں آ جاتا ہے اور اس کے پاس بچ نکلنے کی کوئی قانونی آپشن نہیں رہتی تو اسے سزا لازماً ملتی ہے۔
اکثر ترقی یافتہ ملک میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن ایک عام بیماری ہے لیکن تیسری دنیا کے بعض ملکوں میں یہ بیماری اتنی شدید ہے کہ اس کو ختم کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ افریقہ کے ممالک کی مثال سب کے سامنے ہے۔
براعظم افریقہ قدرتی معدنیات اور وسائل سے بھرا ہوا ہے لیکن اس براعظم کا کوئی ایک ملک بھی ترقی یافتہ ملکوں میں شامل نہیں حتیٰ کہ جنوبی افریقہ بھی، امریکا، جاپان، برطانیہ، آسٹریلیا، جنوبی کوریااور مغربی یورپ کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ ہے۔ نائیجیریا جس کے پاس تیل کے وسیع ذخائر ہیں، اس ملک کے عوام غربت اور خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ ایشیا کی صورت حال بھی افریقہ سے ملتی جلتی ہے، اس براعظم کے ممالک میں شایدکرپشن کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ بھارت میں بھی کرپشن کا حجم بہت زیادہ ہے۔
اسی طرح چین میں بھی کرپشن کے کیسز سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ہم پاکستانی مالی کرپشن میں اس قدر مشہور ہیں کہ ملک ہی کا نہیں بلکہ دنیا بھر کا میڈیا کرپشن کے اس پہاڑ کو سر پر اٹھائے پھر رہا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ احتسابی ادارے اپنی سی کوشش کر رہے ہیں لیکن اشرافیہ نے کرپشن کو اس قدر پھیلا دیا ہے کہ اس کے خاتمے کے حوالے سے سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ کوششیں بے کار ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ اس حوالے سے اس قدر ماہر ہے کہ بڑے بڑے احتسابی ادارے احتساب میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کرپشن کی انتہا پر اسے روکنے کے لیے نیب نامی ایک احتسابی ادارہ بنایا گیا اس ادارے نے کرپشن کے خلاف سخت اقدامات شروع کیے اس کارروائی سے پوری اشرافیہ ایک مرکز پر جمع ہو گئی اور نیب کے خلاف اتنی شدید مہم چلائی کہ نیب کو اپنی کارروائیاں روکنی پڑیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو کرپشن کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ کرپشن کی سرپرستی ایسی بالادست طاقتیں کر رہی ہیں جو کسی کے قابو میں نہیں اور کسی دباؤ کے حوالے سے یہ طاقتیں کرپشن ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے ملک کی آبادی 22 کروڑ ہے، یہ انسان جانوروں کی زندگی گزار رہے ہیں اور دو فیصد ایلیٹ شاہوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس "آزادی" کی نعمت سے عوام کب تک مستفید ہوتے رہیں گے؟ سوال یہ ہے کہ یہ طبقاتی مظالم کون ختم کرے گا؟ دنیا کی تاریخ میں ظلم کے خلاف بغاوتیں ہوتی رہیں، اس حوالے سے انقلاب فرانس کا شمار دنیا کے مشہور انقلابوں میں ہوتا ہے۔ فرانس میں بددیانتی اور ظلم کا عالم یہ تھا کہ عدالتی عمال بھاری رقم لے کر عدالتی عہدے فروخت کرتے تھے ظاہر ہے جو مالدار لوگ عدالتی عہدے خریدتے تھے ان کے اختیارات کا عالم کیا ہو گا؟
اشرافیہ نے کھلے عام اربوں کی کرپشن کا ارتکاب کیا ہے۔ ہمارے ملک میں اشرافیہ نام کی ایک چیز ہے جسے بارہ خون معاف ہیں، کتنی بڑی اربوں روپوں کی کرپشن ایلیٹ کے اثاثوں میں بدل جاتی ہے اور یہ اثاثے کھلے عام اشرافیہ کی ملکیت ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اربوں روپوں کے اثاثے ایلیٹ کے قبضے میں ہیں اور سرکار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان بھاری اثاثوں کو جو ایلیٹ کی ملکیت بنے ہوتے ہیں برآمد کیوں نہیں کرتی؟
جمہوریت کا مطلب اکثریت کی حکومت ہوتا ہے۔ کیا ہمارے ملک میں اکثریت کی حکومت ہے؟ جس ملک میں 22 کروڑ عوام رہتے ہیں اس ملک میں دو فیصد عوام کی حکومت کو جمہوری کہا جا سکتا ہے؟ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کے خاتمے کی پیش گوئی کی ہے۔ اس سے قبل بھی وہ اس قسم کی پیش گوئیاں کرتے رہے ہیں لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔
72سال سے اس ملک میں چند خاندانوں کی حکومت چل رہی ہے وہ بھی ایلیٹ کے ہیں ملک میں باری باری کا کھیل بہت ہو چکا ہے اب پہلی بار عمران خان نے باری، باری کا کھیل توڑ دیا ہے جس سے اشرافیہ سخت اپ سیٹ ہے طرح طرح کے ہتھکنڈے آزما رہی ہے لیکن ماضی کی طرح سارے جال ٹوٹتے رہے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کرائے کے عوام لا کر تحریکیں چلانے سے تحریکیں نہیں چلتیں۔ اصل میں دو مسئلے ایسے ہیں جو ایلیٹ کو سانس لینے نہیں دے رہے ایک تو ایک مڈل کلاسر حکومت کا برسر اقتدار آنا جسے ایلیٹ اپنی توہین سمجھتی ہے دوسرے اربوں روپوں کی لوٹ مار کے مال کو بچانا۔
اس حوالے سے لوٹ مار کے حصہ داروں میں ایسے پرانے گھاگ بھی "فیلڈ" میں آ گئے ہیں اور ہاتھوں کو مرغی کا خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہونا چاہ رہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اربوں روپے کی عوامی محنت کا مال کرپشن کرنیوالوں سے کیسے بچایا جائے۔ سب صاحبان اقتدار کے لیے اس قدر بے چین ہیں کہ بار بار الٹی میٹم دے رہے ہیں۔ عوام کا ایک سیلاب ہے جو کرپٹ اشرافیہ کے گلے پکڑنے کے لیے تیار ہے کیا ایلیٹ ان کروڑوں عوام سے بچ سکتی ہے؟