Friday, 08 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sarmaye Ka Khail

Sarmaye Ka Khail

ایشیائی بینک پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر قرض دے گا، ایسے موقعے پر جب کہ کورونا نے ساری دنیا کو معاشی حوالے سے تباہ کرکے رکھ دیا ہے، 50 کروڑ ڈالر کا قرض کو (امداد نہیں ) ایک نعمت ہی کہا جاسکتا ہے۔

ایشیائی بینک کے کرتا دھرتاؤں نے کہا ہے کہ یہ قرض غریبوں کے تحفظ، صحت کی سہولتوں میں توسیع اور بحران کے دوران روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر خرچ کیا جائے گا۔ اسی طرح پیرس کلب نے 77 غریب ملکوں کا رواں سال دسمبر تک 1.1 ارب ڈالر قرض موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ یہ ممالک کورونا کی وبا سے نمٹ سکیں، بلاشبہ اس خوفناک وبا کے موقع پر دو آنے قرض یا امداد اہمیت رکھتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بہت بھاری نظر آنے والی 50 کروڑ ڈالر کی یہ رقم کورونا کے پیدا کردہ بحران کے سامنے چند روپوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔

سرمایہ دارانہ نظام میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ سرمایہ اور اس پر حاصل ہونے والے سود کو کہاں اور کس طرح محفوظ کیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں بینک وجود میں آئے، کاروبار میں ہونے والی آمدنی بھی سرمائے میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

کورونا کی وبا نے دنیا کی معاشی اور سماجی زندگی کے ساتھ دنیا کے انسانوں کی زندگی کو جس طرح تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اس حوالے سے ایشیائی بینک کی مہربانی قابل تعریف ہے لیکن اس کی حیثیت اونٹ کے منہ میں زیرے سے زیادہ نہیں۔ پاکستان میں صرف تین بار بھوکے عوام کی بارہ بارہ ہزار روپوں سے جو مدد کی اس کے سامنے 50 کروڑ ڈالر اونٹ کے منہ میں زیرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

غریب اور تنخواہ دار طبقہ اپنی چھوٹی چھوٹی پونجیاں اور تنخواہیں حفاظت کی غرض سے بینکوں میں جمع کرتے ہیں۔ یہاں ایک دلچسپ حوالہ حاضر ہے غریب اور مڈل کلاس اپنی محنت کی کمائی اس لیے بینکوں میں رکھتی ہے کہ چوروں اور ڈاکوؤں سے اسے بچایا جاسکے اور مزے کی بات یہ ہے کہ چور اور ڈاکو سرمایہ دارانہ نظام ہی کی پیداوار ہیں اور بڑے بڑے ڈاکوؤں کو کہا جاتا ہے بڑے بڑے بینک پالتے ہیں۔ لیکن یہ موقع اس بحث میں پڑنے کا نہیں ہمارا آج کا مسئلہ کورونا کی تباہ کاریوں سے بچنے اور ان کا سامنا کرنے کا ہے۔

میں نہیں جانتا ایشیائی بینک مالی حوالے سے کتنا بڑا بینک ہے لیکن اگر پاکستان کے تمام سرمایہ دار کورونا فنڈ کے حوالے سے اپنا اپنا بھرپور حصہ ادا کریں تو کورونا سے نمٹنا آسان ہوسکتا ہے۔ دنیا میں ایسے باعقل عوام سے مخلص رہنما موجود ہیں جنھوں نے کسی ملک سے نہ قرض لیا نہ امداد اپنے وسائل ایک طویل لاک ڈاؤن کے لیے جمع کیے (ملک کا نام یاد نہیں آ رہا ہے) اور اپنی قوم کو ایک طویل لاک ڈاؤن سے گزارا اور کورونا کی مصیبت سے باہر نکل آئے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ نہ ہمارے حکمران ایسے عقل مند اور باسلیقہ ہیں نہ بدقسمتی سے عوام میں وہ شعور ہے جس کی آج کی حالات میں ضرورت ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ہر روز موت کا شکار ہو رہے ہیں اور ہمارے بااختیار لوگ فضول کاموں میں وقت گزار رہے ہیں۔ بلاشبہ کورونا ایک خوفناک وبا ہے اور بدقسمتی سے اس کا اب تک کوئی علاج بھی دریافت نہیں ہو سکا لیکن اس کا علاج خود ہمارے پاس ہے۔

ویسے تو کورونا بچاؤ سے فنڈ کے نام سے عوام مڈل کلاس سے روپیہ حاصل کیا جاسکتا ہے، ہمارے عوام ضرورت پڑنے پر یا قومی اہمیت کے کاموں پر دل کھول کر فنڈ دیتے ہیں۔ خواہ انھیں یہ فنڈ پیٹ کاٹ کر ہی کیوں نہ دینا پڑے لیکن ہماری قومی اشرافیہ "خدا کے فضل" سے اتنی مالدار ہے کہ دو مہینے کے لاک ڈاؤن کا بڑی آسانی سے مقابلہ کرسکتی ہے بہ شرطیکہ ان کی طبقاتی فطرت اور طبقاتی بالادستی کو سامنے رکھ کر ان سے بات کی جائے، سیاسی رہنماؤں کے علاوہ قومی بوروژوازی بھی ہمارے ملک میں ہے اور قومی بوروژوازی سرمایہ دارانہ نظام میں منافع خوری ہی نہیں کرتی بلکہ قوم ملک پر کوئی بڑی مصیبت آئے تو وہ کھل کر اس مصیبت سے نمٹنے کے لیے حاضر رہتی ہے، ابھی ابھی کسی نے کہا کہ سندھ میں چھ ماہ کے لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے جا رہا ہے۔

ہمارے خیال میں یہ ایک پھلجھڑی ہے۔ حقیقت سے دور کیونکہ ہماری حکومتیں دو چار دن کے لاک ڈاؤن ہی سے چیں بول جاتی ہیں اگر یہ لاک ڈاؤن بقول شخصے صرف سندھ میں کیا جا رہا ہے تو اسے سنبھالنے کے لیے ارب پتی بڑی تعداد میں موجود ہیں، شاید وہ طویل لاک ڈاؤن کو سنبھال سکیں اگر عوام سے اس حوالے سے اپیل کی جائے تو وہ جسم کے کپڑے اور برتن بھانڈے بھی سامنے لا کر رکھ دیں کیونکہ یہی ان کا سرمایہ ہے۔