سیاسی ماحول کو بتدریج خراب کرنے کی دانستہ اور منصوبہ بند کوشش کی جا رہی ہے، جس کا مقصد ایوان وزیر اعظم میں نقب لگانا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہماری " عوام دوست" اپوزیشن اقتدار کے بغیر ایسے ہی تڑپتی ہے، جیسے بن پانی مچھلی۔
صبح سے شام تک جمہوریت کا وردکرنے والے اقتدار کی جمہوری مدت کو پورا ہونے دینے کے بجائے درمیان میں زقند لگانے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی مشکل سے دوسال ہو رہے ہیں، ابھی تین سال باقی ہے لیکن نئے فقیرکو بھیک کی جلدی کے مصداق وزیر اعظم ہاؤس کی طرف مسلسل چھلانگیں لگا رہی ہے۔ ہماری اپوزیشن میں ایک سے بڑا ایک جمہوریت دان ہے لیکن اپنی جلد بازی کی وجہ وقت سے پہلے وہ کام کرنا چاہتے ہیں جو آئین اور قانون کے خلاف ہے۔
پاکستان پہلے ہی کورونا اور ٹڈی دل جیسی بلاؤں میں گھرا ہوا ہے، یہ بلائیں عمران خان نہیں لایا بلکہ اپوزیشن کے سبز قدم کا نتیجہ ہیں۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ سارا ملک کورونا سے خوفزدہ اپنے آپ کو اس بلائے ناگہانی سے بچانے کی فکر میں مبتلا ہے اور ہماری محترم اپوزیشن یا اقتدار، یا اقتدارکا ورد کر رہی ہے۔ یہ ہے ہماری و اپوزیشن جس کے گن چمچے گا رہے ہیں اور شہباز اینڈ برادران دن کے 24 گھنٹے اقتدار، اقتدار کا وظیفہ پڑھ رہے ہیں۔
پچھلے دو ادوار میں لوٹا ہوا مال ابھی صحیح طریقے سے سیف بھی نہیں کیا گیا کہ نئے مال کی فکر میں غلطاں ہیں۔ ہمارے ملک میں اشرافیہ کو جمہوریت کی سب سے زیادہ فکر ہے سونے سے پہلے50 بار یا جمہوریت کا ورد کرتی ہے تو جاگنے کے بعد ہزار بار یا اقتدارکا وظیفہ پڑھتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اپوزیشن جتنی تیزی سے اقتدارکی سمت دوڑ لگا رہی ہے، اقتدار اس سے دوگنی تیزی کے ساتھ اس سے دور بھاگ رہا ہے۔ اس بدقسمتی کو کیا کہیں کہ دانہ آگے آگے ہے گھوڑا پیچھے پیچھے ہے۔ مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ موجودہ حکومت تیزی کے ساتھ عوامی مفادات کے بڑے بڑے پروجیکٹس کے مسلسل افتتاح کر رہی ہے اور یہ پروجیکٹ اپوزیشن کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ آج جتنے بڑے کام ملک کے اندر ہو رہے ہیں اس سے زیادہ بڑے کام خارجہ محاذ پر ہو رہے ہیں اورحکومت کی یہ کارکردگی ہماری اپوزیشن کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے اگر اپوزیشن عقلمند ہوتی تو ترقیاتی کاموں کا اربوں روپیہ کام میں لاتی اور ترقیاتی کام کرکے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کرتی، یہ ایک مثبت کام ہوتا جو آنے والے دنوں میں ہماری اپوزیشن کے کام آتا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن وہ ہر کام کر رہی ہے جو مغرور اشرافیہ کرتی ہے جس کا نتیجہ عوام اور بدظن ہو رہے ہیں۔
موجودہ حکومت جن ناموافق اور بدترین حالات میں کام کر رہی ہے، اس کے پیش نظر اخلاق کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اسے یکسوئی سے کام کرنے دیا جاتا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بجائے ان مشکل اور بدترین حالات میں حکومت کو یکسوئی سے کام کرنے دیا جاتا اس کی ٹانگیں کھینچی جا رہی ہیں، اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ ہماری اپوزیشن عوام کی حمایت سے محروم ہے ورنہ اب تک عوام کو سڑکوں پر لاکر حکومت کا بینڈ بجادیا جاتا۔
10 سال کی کرپشن نے عوام کو اپوزیشن سے اس قدر بدظن کردیا ہے کہ وہ اس کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں اور وہ وہی رویہ اپنائے ہوئے ہے جو ایسے حالات میں ذمے دار قومیں اپناتی ہیں۔ ہماری اشرافیہ کو سخت غصہ اسی بات پر ہے کہ عوام اس کی بات کیوں نہیں سن رہے ہیں؟
ہماری سیاست میں بعض ایسے خالی ڈبے ہیں جو وقتاً فوقتاً بجائے جاتے ہیں۔ 72 سال سے جو کچھ عوام نے دیکھا ہے اس کے بعد عوام سے یہ امید کرنا کہ وہ اشرافیہ کی حمایت میں سڑکوں پر آئیں گے۔ ایں خیال است و محال است و جنوں۔ عوام سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ساری دنیا آج کورونا کے خوف میں مبتلا ہے، جانی دشمن آج دوست بن رہے ہیں، ہر شخص 24 گھنٹے اس خوف میں مبتلا ہے کہ خدانخواستہ وہ کورونا کا شکار نہ ہو جائے کیونکہ غریب طبقات وہ حفاظتی انتظام نہیں کرسکتے جو ڈاکٹر بتا رہے ہیں۔ ایک ماسک خریدنا ان کے لیے مشکل ہے، یہ غریب طبقات ہر وقت کورونا کی زد میں رہتے ہیں، ڈاکٹر حضرات عوام سے بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ بار بار صابن سے ہاتھ دھوئیں اور بے چارہ غریب جو مہینوں نہا نہیں سکتا، اتنا صابن کہاں سے لائے کہ دن بھر ہاتھ دھوتا رہے۔ کیا ہماری ایلیٹ غریب کی صابن سے محرومی سے واقف ہے؟
صدیوں سے دنیا کے عوام طبقات میں بٹے ہوئے ہیں، ایک طبقہ جو 90 فیصد آبادی پر مشتمل ہے نان جویں سے محتاج ہے اور دوسرا طبقہ جو مشکل سے دو فیصد پر مشتمل ہے ایسی نعمتوں سے مستفید ہو رہا ہے جو غریبوں کے تصور سے بھی پرے ہے، کیا صدیوں سے جاری نظام کو جڑوں سے نکال کر نہیں پھینک دینا چاہیے، اگر تمام انسان ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرتے ہوئے صرف اور صرف انسان بن جائیں تو یہ دنیا جنت بن سکتی ہے۔