ایسے اہم ترین ایشوز جن کا تعلق عوام کی زندگی عوام کے حال اور مستقبل سے ہو ان پر بار بار کالم لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ عوام میں احساس اور شعور بیدار ہو اور وہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت کرسکیں۔ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں اس ملک میں اشرافیہ کا ایک چھوٹا سا طبقہ سیاست اور حکومت میں آتا ہے اور اربوں روپوں کی لوٹ مار کرتا رہتا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اشرافیائی گروہ سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔ اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ "طاقت کے ذریعے" عوام کی طاقت کے ذریعے لیکن جب عوام کی طاقت کو ایک سازش کے ذریعے پارہ پارہ کردیا گیا ہو تو پھر کیا کیا جائے؟
اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ ایک فرد واحد نے اپنی کوششوں سے یا کسی طاقت کی حمایت سے اس اشرافیہ کو اقتدار بدر کردیا ہے جو عشروں سے عوام پر حکمرانی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس تبدیلی سے اشرافیہ بے چین ہے اور موجودہ سیٹ اپ کو توڑنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔
بعض حلقوں میں جو جمہوریت کے حوالے سے موجودہ سیٹ اپ کی مخالفت کر رہے ہیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ موجودہ سیٹ اپ کے علاوہ کون سا ایسا سیٹ اپ ہے جو عوام کی حکمرانی کو یقینی بنائے؟ اس سوال کا جواب بڑا مشکل ہے لیکن کوئی نہ کوئی ایسا راستہ تو نکالنے کی ضرورت ہے جو عوام کی حقیقی حاکمیت کو یقینی بنائے۔ ماجی میں روس اور چین میں عوامی انقلاب کے ذریعے وہ تبدیلی لائی گئی جس میں عوام کی حاکمیت کا تصور فروزاں رہا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی سازشوں سے اس سیٹ اپ کو ختم کردیا گیا جو کسی نہ کسی طرح عوام کی برتری کا امین تھا۔ اور اسی سرمایہ دارانہ کرپٹ نظام کو عوام پر لاد دیا گیا جو اشرافیہ کی حکمرانی کی راہ ہموار کرتا ہے۔
موجودہ سیٹ اپ کو کسی طرح بھی عوامی اور انقلابی نہیں کہا جاسکتا لیکن اس سیٹ اپ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ عوام کو اس خاندانی نظام سے نجات ملی جو عشروں سے عوام کے سروں پر مسلط تھا اور صورتحال کی سنگینی کا دائرہ یہ تھا کہ ساری سیاسی طاقت خاندانوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہو کر رہ گئی تھی جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے کہ اس نیم دروں نیم بروں سیٹ اپ کو ہم انقلابی یا عوامی تو نہیں کہہ سکتے البتہ انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کہہ سکتے ہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ بڑی حد تک کرپشن سے پاک ہے یہی نہیں بلکہ اشرافیہ کے گرد احتساب کا پھندا مضبوط کر رہا ہے جس کی حمایت کی جانی چاہیے، اگر کسی وجہ سے ہم اس سیٹ اپ کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ملک کو اس خاندانی نظام کی طرف دھکیل رہے ہیں جو جمہوریت کے نام پر حکمرانی کا علم بردار ہے۔
دوسری رائے یہ ہے کہ موجودہ حکومتی سیٹ اپ کا تعلق بھی اشرافیہ سے ہے اور ایک مافیا لوٹ مار کر رہا ہے، کبھی چینی مافیا، آٹا مافیا اور کبھی پلاٹوں کی خرید و فروخت کی آڑ میں عوام کا پیسہ ہڑپ کرنے والا مافیا عوام پر مسلط ہو چکا ہے، راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل سب کے سامنے ہے اور ابھی تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ دیکھا جائے تو کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ سرکاری محکموں میں کرپشن اور رشوت میں اضافہ ہوا ہے۔ عوامی میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے اور پڑھے لکھے فہمیدہ لوگ موجودہ سیٹ اپ کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کہ اس کمزور سیٹ اپ کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔
یہاں پر میں یہ بات واضح کردوں کہ موجودہ سیٹ اپ کی مخالفت اور خاندانی سیٹ اپ کی حمایت کرنے والے کیا یہ نہیں جانتے کہ وہ جسے جمہوریت کا سمبل سمجھ رہے ہیں وہ اس اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں پل کر جوان ہوا ہے اور اب بھی اس امید پر زندہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر دوبارہ اقتدار میں آسکتا ہے۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہماری اشرافیہ کا ایک طبقہ مختلف حوالوں سے ایک بار پھر کسی نہ کسی طرح اقتدار میں آنے کے لیے کوشاں ہے جب کہ اشرافیہ کا دوسرا طبقہ آج بھی اقتدار میں ہے۔ کل بھی اشرافیہ کی حکمرانی تھی اور آج بھی اشرافیہ حکمران ہے، یہ اشرافیہ کی اقتدار کی لڑائی ہے اور پس عوام رہے ہیں۔
بعض حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے۔ ہو سکتا ہے یہ اندازے درست ہوں لیکن اس حقیقت کا کیا جواز ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس اشرافیہ کے کارندوں کے گلے میں رسی ڈال رہی ہے جو کئی سالوں تک اس غریب ملک کے غریب عوام کی دن رات کی محنت کی کمائی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتی رہی اور اب بھی اسی لوٹ مار کی دولت کو اپنے اقتدار کے لیے استعمال کر رہی ہے اگر موجودہ سیٹ اپ سے بہتر کوئی عوامی سیٹ اپ آتا ہے تو کوئی اہل عقل اس کی مخالفت نہیں کرے گا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں عوام اس قدر باشعور ہیں کہ وہ جمہوریت اور اشرافیائی آمریت کے فرق کو سمجھ سکیں؟
بہرحال موجودہ صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ میں عوام کی برتری کے امکانات تلاش کریں لیکن اگر جمہوریت کے نام پر پھر وہی لٹیری اشرافیہ کو آگے آنے کے مواقع فراہم کیے جائیں تو یہ ایک عوام دشمن کوشش ہوگی۔ البتہ موجودہ حکومت پر یہ دباؤ ہونا چاہیے کہ وہ عوامی طاقتوں کو مضبوط بنائے اور اشرافیہ کواور کمزور کرے۔