ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سرکاری اداروں کے ملازمین کے ساتھ خصوصی پالیسیاں اختیارکی جاتی ہیں، ہر سال کی طرح اس سال بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جائے گا۔
مہنگائی اور بے روزگاری کے تناظر میں تنخواہوں میں اضافہ ایک فطری اور قانونی طریقہ کار ہے۔ ظاہر ہے موجودہ غیر معمولی اور خطرناک حالات میں اس اعلان کا خیرمقدم ہی کیاجائے گا، کیونکہ ملک ایک سخت بحرانی صورت حال سے گزر رہا ہے۔
پچھلے سال بھی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کے اعلان سے ایک مایوس کن صورتحال پیدا ہوئی تھی کہ بلدیاتی ملازمین اور پنشنرز تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سے محروم رہے۔ اس سال بھی صورتحال یہی ہے کہ اضافے کا اعلان توکیا جائے گا، لیکن اس اعلانی اضافے سے بعض بڑے ادارے محروم رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح صنعتی مزدور بھی ہمیشہ سرکاری اعلان کے بعد تنخواہوں میں اضافے، خاص طور پر پنشن میں اضافے سے محروم رہتے ہیں، بلدیہ کراچی میں لاکھوں ملازمین کام کرتے ہیں، جو اس اضافے سے محروم رہتے ہیں۔
بلدیاتی اعلیٰ حکام خاص طور پر میئر بلدیہ کو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ ان ملازمین کے حوالے سے جو فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں، وہ ضرورت سے بہت کم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ملازمین خصوصاً پنشنرزکی پنشن میں اضافے کے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس مسئلے کا اصل سبب یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں کے دوران کراچی کے ترقیاتی فنڈز صوبائی اور مرکزی نمایندوں یعنی ایم این اے اور ایم پی ایز میں تقسیم کر دیے جاتے رہے اور عام تاثر یہ ہے کہ یہ بھاری ترقیاتی رقوم ہمارے ایم این ایز اور ایم پی ایزکی صوابدید پر رہتے تھے اور ہمارے ملک میں منتخب رہنماؤں کی صوابدید سے کیا مطلب لیا جاتا ہے، یہ کوئی رازکی بات نہیں۔
سرکاری اداروں کے ریٹائرڈ ملازموں کا ایک اہم مسئلہ یہ کہ چھ سال پہلے جو ملازمین ریٹائر ہوئے ہیں آج تک ان کے واجبات ادا نہیں کیے گئے۔ یہ ایک کھلی ناانصافی ہے اس حوالے سے بھی بلدیاتی حکام کا اعتراض یہی ہے کہ صوبائی حکومت بلدیہ کو ضرورت کے مطابق فنڈ مہیا نہیں کرتی۔ یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے ہمارے صوبائی وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ انتہائی شریف آدمی ہیں، ہمیں یقین ہے کہ وہ بلدیہ کے ملازمین اورحکام کی جائزشکایات کا اپنی پہلی فرصت میں ازالہ کریں گے۔
اصل میں یہ ناانصافیاں دس سال پر مشتمل اس اشرافیائی دورمیں ہوئی ہیں، جسے اشرافیائی دورکہا جاتا ہے۔ بلدیات کے وہ ریٹائرڈ ملازمین جنھیں ریٹائرڈ ہوکر پانچ چھ سال ہو رہے ہیں، وہ اپنے گھریلو مسائل سے سخت پریشان ہیں کیونکہ ان کے نجی مسائل جن میں بچوں کی شادیاں وغیرہ شامل ہیں، برسوں سے واجبات رکے ہوئے ہیں اگر ان کے بقایا جات ادا کر دیے جائیں تو یہ ضعیف پنشنرز اپنی زندگی میں ان فرائض سے سبکدوش ہوسکتے ہیں۔ بلدیہ کے میئر خود بھی کئی بار شکایت کرچکے ہیں کہ انھیں اتنے کم فنڈز ملتے ہیں کہ وہ اپنے اس اہم محکمے کی ضرورت پوری نہیں کرسکتے۔
72 سال کے طویل عرصے میں کتنی ہی حکومتیں آئیں، لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اشرافیائی حکومتوں کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں رہتا۔ پی ٹی آئی حکومت سے قبل جو حکومتیں برسر اقتدار رہیں، ان کا عوام سے تعلق الیکشن کے دور میں ووٹ کے حصول ہی سے رہا، عام آدمی کے مسائل سے اشرافیائی حکومتیں ہمیشہ لاتعلق رہیں اور اب ایک بار پھر حصول اقتدار کی خواہش میں جتی ہوئی ہیں۔
عمران خان نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے مسلسل یہ کوشش کر رہے ہیں کہ غریب عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کریں اسے ملک کے عوام کی بدقسمتی کہیں یا حکمرانوں کی خاص طور پر حکومت کی بدقسمتی کہ کورونا اس طرح ملک پر مسلط ہو گیا ہے کہ حکومت سکون سے کوئی کام نہیں کر پا رہی ہے۔
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ حصول آمدنی کے لیے ہمارے ملک کے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بینکوں سے قرض لے کر نئی گاڑیاں خریدی ہیں اور انھیں مکمل یا جزوی طور پر چلا کر آمدنی میں اضافے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کی بدقسمتی سے کورونا کی وبا کی زد میں آن لائن ٹیکسیوں سمیت تمام آن لائن کاروں کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ ان نوجوانوں نے بتایا ہے کہ جن بینکوں سے انھوں نے قرض لے کر یہ نئی گاڑیاں خریدی تھیں، لاک ڈاؤن سے یہ گاڑیاں مکمل طور پر بند ہوگئی ہیں اور بینکوں کی قسطیں ادا کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا ہے۔ آن لائن پرائیویٹ گاڑیوں کی قسطیں معاف یا لاک ڈاؤن تک معاف یا ملتوی کردیں تو ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سہولت مل جائے گی۔