Friday, 08 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Trazo

Trazo

دنیا کے کئی ملک جنگوں کی لپیٹ میں ہیں۔ امریکا، ایران اس حوالے سے زیادہ متحرک ہیں۔ شمالی کوریا، جنوبی کوریا بھی تصادم کی راہ پر گامزن ہیں۔ ہندوستان پاکستان اور ہندوستان چین بھی تصادم کی راہ پر چل رہے ہیں۔ غرض دنیا کے کئی ملک متصادم ہیں ان کے درمیان کبھی بھی جنگ شروع ہوسکتی ہے، ادھر ہتھیاروں کی صنعت دن رات ہتھیاروں کی تیاری میں مشغول ہے۔ اربوں ڈالر کا ہتھیار تیار ہو رہا ہے اور فروخت ہو رہا ہے بلکہ کئی ملک اس حوالے سے ایڈوانس بکنگ کروا رہے ہیں، ہتھیاروں کی خرید پر جو کھربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں اگر یہ رقم لاکھوں ننگے بھوکے عوام پر خرچ کیے جائیں تو دنیا سے غربت کا نام و نشان مٹ جائے گا لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ ہتھیاروں کے سوداگر اتنے مالدار اور ہتھیاروں کی صنعت اتنی پھیلی ہوئی ہے کہ اس کو ختم کرنا محال است و جنوں کے علاوہ کچھ نہیں۔

ہتھیار اس کرپٹ جنگجو دنیا کی ضرورت ہے بلکہ ناگزیر ضرورت ہے اور سب سے اہم مسئلہ اس حوالے سے یہ ہے کہ اس کاروبار میں اربوں روپوں کا کمیشن ملتا ہے جو ہتھیار بیچنے والے ہتھیار خریدنے والوں کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ جنگوں کی فضا بنانے والے ایجنٹوں کو بھی کروڑوں ڈالر کا کمیشن ملتا ہے یہ اور دیگر کئی عناصر ہیں جو جنگوں کا سبب بنتے ہیں اگر کسی ملک کا سربراہ جنگوں کی طرف جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہتھیاروں کی انڈسٹری کا بالواسطہ ایجنٹ ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چند سربراہان ساری دنیا کو اپنی کرپشن پر بلی چڑھاتے ہیں۔ یہ تجارت کھربوں ڈالر تک پھیلی ہوئی ہے اور مزید پھیلتی جا رہی ہے۔

دنیا میں ہر روز بھوک سے ہزاروں انسان موت کا شکار ہو جاتے ہیں، ہر روز ہزاروں انسان بیماریوں سے مر جاتے ہیں، ہر روز ہزاروں بچے دودھ اور مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر روز خواتین زچگی کی سہولتوں سے محرومی کی وجہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ یہ ہے وہ المیہ جو ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت کا محرک ہے۔ انسان اور حیوان میں فرق یہ ہے کہ انسان میں سوچنے سمجھنے کی خوبی ہے احساس کا جذبہ ہے لیکن ان سارے جذبات اور احساسات پر دولت غالب ہے۔ اس انڈسٹری میں بھی انسان ہی کام کرتے ہیں اور اس کی تجارت میں بھی انسان ہی ملوث ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ جو جنگیں لڑاتے ہیں وہ اپنے محلوں میں عیش کی زندگی گزارتے ہیں اور میدان جنگ میں ہزاروں کی تعداد میں دونوں طرف سے مارے جانے والے بھی غریب ہی ہوتے ہیں۔

یہ کیسا نظام ہے یہ کیسا المیہ ہے ایک انسان دولت کی خاطر دوسرے ہزاروں انسانوں کی موت کا سبب بن رہا ہے۔ اشرف المخلوقات کا یہ ایسا المیہ ہے جو اسے حیوان سے بدتر بنا دیتا ہے۔ ہر ملک میں چیونٹیوں، مکوڑوں کی طرح دانشور، مفکر، عالم فاضل پھیلے ہوتے ہیں۔ کیا انھیں کھربوں ڈالر کی ہتھیاروں کی خرید و فروخت نظر نہیں آتی۔ کیا انھیں وہ ایجنٹ نظر نہیں آتے جو اس کاروبار میں لاکھوں ڈالر کما لیتے ہیں۔ کیا انھیں وہ جنگیں نظر نہیں آتیں جو ہزاروں انسانوں کوجنگ کا ایندھن بنا دیتی ہیں؟

اخباری کالم ہزاروں لوگ پڑھتے ہیں، اگر ان میں سے 10 فیصد بھی کالمز لکھنے کے مقاصد کو سمجھنے لگیں تو یہ قلم کار کی ایسی کامیابی ہے جس پر وہ فخر کر سکتا ہے۔

میں اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ قلم کاروں کو جو معاوضہ ملتا ہے وہ مبنی بر انصاف ہے؟ 40 سال کا عرصہ لکھتے ہوئے گزر گیا لیکن ہم چالیس سال پہلے جہاں کھڑے تھے اب بھی وہیں کھڑے ہیں۔ ایسا کیوں؟ اس سوال کا جواب پہلے سرمایہ دارانہ نظام جو کمزوروں کو اور کمزور اور طاقتوروں کو اور طاقتور بنادیتا ہے۔ بہت سارے احمق سرمایہ دارانہ نظام کے بائی پروڈکٹ پر لاٹھیاں لے کر چڑھ دوڑتے ہیں جب کہ سرمایہ دارانہ نظام ان کے سامنے کھڑا قہقہے لگاتا ہے، ان قہقہوں میں جو زہر بھرا ہوتا ہے وہ اہل قلم کو متاثر کرتا ہے۔ میں نے افسانوں کے 9 مجموعے اور کالمز کے چار مجموعے لکھے ہیں۔ کالموں کا چوتھا مجموعہ شایع ہو گیا ہے لیکن اس کی لانچنگ پابندیوں کی وجہ ابھی تک نہ ہو سکی، پابندیاں ختم ہوں تو "سنگ ریزے" کی لانچنگ کا اہتمام ہوگا۔

کالم کی ہر اخبار میں ایک الگ شناخت ہوتی ہے چونکہ نہ صرف ملک کے مسائل موضوع ہوتے ہیں بلکہ ہر اہم بین الاقوامی موضوع بھی کالم میں ڈسکس کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ کالم نگار کے نظریات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ سیاست دور حاضر کا ایک عمومی موضوع ہے۔

ہر کالم نگار عموماً اپنے کالم کے لیے سیاسی مسائل ہی کو اپنا موضوع بناتا ہے لیکن اس میں اہم بات یہ ہوتی ہے کہ کیا خاص کی بیان بازیاں کالم کا موضوع ہوتی ہیں یا عوام کے سنگین مسائل کالم کا موضوع ہوتے ہیں۔ اس کے حوالے سے کالم نگار کی پہچان بنتی ہے۔ ہمارے ملک میں مٹھی بھر اشرافیہ کے واقعات اگر کالم کا موضوع بنتے ہیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کالم نگارکی کیا سوچ اور ہدف ہے، اگر کالم کا موضوع غریبوں مزدوروں کسانوں کے مسائل ہوتے ہیں تو اس سے کالم نگار کی ذہنیت کا پتا چلتا ہے۔

پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے جہاں کے 22 کروڑ انسان انتہائی تکلیف دہ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جب چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھوں میں بالٹیاں پکڑے پانی کی تلاش میں ادھر ادھر جاتے دیکھے جاتے ہیں تو فوری اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکمران طبقہ کس قدر غیر ذمے دار اور ظالم ہے جب صبح بچوں کو بغل میں کتابیں دبائے اسکولوں کو جاتے دیکھا جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران طبقے کو قوم کے بچوں کے مستقبل سے دلچسپی ہے۔ یہ وہ پیمانے ہیں جن سے ہم حکومتوں کی کارکردگی جانچ سکتے ہیں۔ تعلیم قوم کے مستقبل کا تعین کرتی ہے اگر کسی حکومت میں تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے تو فوری اندازہ ہوجاتا ہے کہ حکومت کو نئی نسلوں کی بھلائی کی فکر ہے۔