Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Working Class

Working Class

اپوزیشن جس قدر بڑے پیمانے پر احتجاج کی تیاریاں کر رہی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ایونٹ پر اتنی بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہے کہ شاید ماضی میں کسی تحریک پر اتنی بھاری سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے بھی جلسے جلوس ہوتے رہے ہیں اور تحریکیں چلتی رہی ہیں لیکن اس بار اتنے بڑے پیمانے پر تیاری کی وجہ کیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایلیٹ سیاست اور اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے۔

یہ مسئلہ آسان ہے نہ اسے آسانی سے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ تاریخ میں عمران خان جیسے ایک کرکٹر نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا ہے اور ڈٹ کر حکومت کر رہا ہے۔ ایلیٹ کھول رہی ہے کہ ایک سابق کرکٹر کو یہ جرأت کیسے ہو رہی ہے کہ ایلیٹ کی جاگیر اقتدار پر ایک سابق کرکٹر نے نہ صرف عوام کی مرضی اور رائے سے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا ہے بلکہ دو سال بھی گزار دیے ہیں، یہ چیز ایلیٹ کی برداشت سے باہر ہے۔

ایلیٹ کو ماضی میں جو کمائی ہوئی ہے اس کی بھر پوری کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ سرمایہ رکھنے کی جگہ نہ تھی اس لیے ایلیٹ نے غریبوں کے اکاؤنٹس میں لاکھوں کروڑوں روپے ڈال دیے، ایسا بھی نہیں ہوا اس کی وجہ یہ ہے اور جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایلیٹ نے پچھلے سالوں میں جو اربوں روپوں کی لوٹ مار کی اور جسے سنبھال کر رکھنا شاید مشکل ہو رہا ہے۔

ایلیٹ اس سرمایہ کاری سے کئی فائدے حاصل کر رہی ہے جس سرمائے کو رکھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ احتجاج کی تیاری پر کثیر سرمایہ خرچ کر کے ایک تو سرمائے کی کھپت کا آسان حل نکال لیا گیا دوسرا یہ سرمایہ کاری اس قدر منافع بخش ہے کہ ماضی کی نسبت اب اس سے کئی گنا زیادہ منافع کے مواقع حاصل ہو رہے ہیں کہ اگر صرف پانچ سال اقتدار مل جائے تو ماضی سے دس گنا زیادہ منافع حاصل ہو سکتا ہے۔ اقتدار کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے کہا جا رہا ہے کہ اس قدر بڑے پیمانے پر دولت لٹائی جا رہی ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی اور موقع کے منتظر کھلاڑی پوری تیاری کے ساتھ اس احتجاج میں شرکت کی تیاری کر رہے ہیں۔

ایسے موقعوں پر دیہاڑی دار ٹیمیں الرٹ رہتی ہیں کیونکہ یہ کمائی کا سیزن ہوتا ہے۔ ایلیٹ کو اندازہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں عوام زیادہ باشعور ہیں کیونکہ ڈھائی تین سال پہلے پی ٹی آئی کی جانب سے انتخابی مہم میں سیاسی مخالفین کے خلاف کرپشن کا جو پروپیگنڈا ہوا اس کی وجہ سے عوام کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور وہ سوچ رہے ہیں کہ برسوں سے وہ جس ایلیٹ کے کارنامے دیکھتے آ رہے ہیں یہ وہی ایلیٹ ہے جو ماضی میں عوام کو بے وقوف بناتی آئی ہے اور اب خدائی فوجدار بن کر ایک بار پھر اسی تیاری میں مصروف ہے۔

آج کی سیاسی زندگی کا انحصار سائنٹیفک پروپیگنڈے پر ہے اور بدقسمتی سے ہماری حکومت پروپیگنڈے کی الف ب سے ہی سے واقف نہیں۔ اگر حکومت کے پاس ایک منظم پروپیگنڈا ٹیم ہوتی تو سیاستدان عوام کے سامنے آتے اور ان کی آنکھیں کھل جاتیں لیکن حکومت الٹا سیدھا جو کر پا رہی ہے اسے غنیمت ہی کہا جا سکتا ہے یہ حکومت کی بدقسمتی ہے کہ اس کے پاس جدید دور کے تقاضے پورے کرنے والی پروپیگنڈا ٹیم موجود نہیں جو وزراء اکرام یہ کام انجام دے رہے ہیں وہ جدید پروپیگنڈا تکنیک سے واقف ہی نہیں نہ ان ایشو پر بات کی جا رہی ہے جو عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا سکیں۔ چونکہ ایلیٹ زندگی کے تمام شعبوں میں سرائیت کر گئی ہے کہ ملک کا کوئی ایسا حصہ نہیں جہاں ایلیٹ کے "ورکر" موجود نہ ہوں یہی وجہ ہے کہ احتجاج کرنے والے اپنی "کارکردگی" سے مطمئن ہیں۔

آنے والے احتجاج میں ایلیٹ عوام کو بے وقوف بنانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ آج تک ایلیٹ دولت کے ذریعے انتخابات جیتتی رہی ہے اور انتخابات میں امید کے مطابق ایلیٹ کے شہزادے شہزادیاں آگے رہی ہیں۔ ہم ایلیٹ کی تحریک کو پس پشت ڈال کر انتخابات کی طرف نکل گئے۔ انتخابات ہی آج کا سب سے اہم اور بڑا ایشو ہے کیونکہ ورکنگ کلاس کو اس بار آگے لانا ہے یہ ایک ضروری ٹاسک ہے لیکن تحریک کی طرف عوام کی توجہ مبذول کرانا بھی ضروری ہے۔ آج تک انتخابات ایلیٹ کا مشغلہ رہے ہیں لیکن آنے والے انتخابات کو بالکل الگ بنانا ہے۔

اب انتخابات میں صرف ایلیٹ ہی کھڑا نہیں ہوگا بلکہ کسانوں، مزدوروں، صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ صحافی بھی کھڑے ہوں گے اور امید ہے کہ حکومت انتخابی مہم جدید طریقوں سے چلائے گی تو مزدور، کسان، صحافی، ادیب اس انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لیں گے۔