ہماری اپوزیشن عرف این ڈی ایم آج کل بہت متحرک ہے، یکم اکتوبر کو اپوزیشن رہنما نے اپنے معززین کے ایک اجتماع سے طویل خطاب کرتے ہوئے اپنی بے گناہی اور اپنی جمہوری خدمات کی ایک طویل تفصیل عوام کو سنائی۔ عوام بے چارے چونکہ روٹی، روزگارکے چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔
اس لیے ان سیاسی ایکٹیوٹیز کے لیے وقت نہیں نکال سکتے، سو کچھ سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں نے وقت گزارنے کے لیے یہ طویل بھاشن سن لیا۔ میاں صاحب کے معاملات یہ ہیں کہ میاں صاحب جب پاکستان سے گئے تھے تو یہ جواز دیا گیا تھا کہ وہ سخت بیمار تھے، عدالتوں میں جانے سے قاصر تھے لیکن اس طویل تقریرکے دوران وہ سو فیصد تندرست نظر آ رہے تھے اور پرجوش بھی۔
میاں صاحب نے بہت ساری چشم کشا باتیں کیں لیکن کرپشن کے الزامات کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔ پاکستان میں قانون کی نظر میں میاں صاحب اب ملزم نہیں، مجرم ہو گئے ہیں۔ وہ بھی غالباً دس سال کی سزا کے لیکن انھوں نے سزاؤں کی پروا کیے بغیر بہادرانہ تقریر فرمائی اور عمران خان کے خوب لتے لیے، عین اسی سمے پاکستان میں عدالت میں ان کے مفرور ہونے کی کارروائی کا آغاز بھی ہو رہا تھا۔
ہم نے کئی حکمرانوں کے حالات دیکھے اور سنے لیکن میاں صاحب کے خلاف تحریک انصاف کی حکومت اور خود عمران خان نے جو کچھ کہا ہے، انھیں سن کر ہمیں پسینہ آ رہا تھا لیکن میاں صاحب کی بہادری کا عالم یہ تھا کہ انھیں ان الزامات اور عدلیہ کی طرف سے سنائی گئی سزا کی انھیں ذرہ برابر پرواہ نہ تھی۔ وہ پوری رفتار سے بولے جا رہے تھے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ نیب نے سابق حکمرانوں کوکرپشن وہ بھی چھوٹی موٹی نہیں بھاری کرپشن کے پنجوں میں اس طرح جکڑ لیا ہے کہ نہ آگے بڑھنے کی جگہ رہی نہ پیچھے ہٹنے کا راستہ۔ موجودہ حکومت کا الزام ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے دس سال جس آزادی کے ساتھ کرپشن کا بازار گرم رکھا گیا، اس کی ماضی میں مثال نہیں مل سکتی۔ تحقیقاتی ادارے اب تحقیق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں، اب وہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرنا چاہتے ہیں اور یہی وہ مسئلہ ہے جو ہماری اپوزیشن کا واحد مشن بنا ہوا ہے۔ تحریک کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔
بے چارے عوام کے پاس ان فالتو کاموں کے لیے وقت نہیں صرف خواص اس تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اور وہ بھی منہ مانگی تگڑی دھیاڑی پر۔ پیسہ اتنا ہے کہ رکھنے کی جگہ نہ تھی تو دودھ والوں، ریڑھی والوں کے اکاؤنٹس میں لاکھوں روپے ڈال دیے، یہ تاریخ کا ایک دلچسپ باب ہے۔
میاں صاحب اور متعلقین عمران خان پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ حکومت کررہے ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ میاں برادران کی سیاست کا آغاز ہی ایک جنرل ضیا الحق کی مہربانی سے ہوا اور میاں صاحب جنرل ضیا کے اس قدر پسندیدہ سیاستدان رہے ہیں کہ ضیا نے انھیں اپنا جاں نشیں بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ان تلخ حقائق کے پس منظر میں عمران پر اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہونے کا الزام ذرا نہیں جچتا۔ ویسے بھی ہماری پوری جمہوریت اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں پروان چڑھتی رہی ہے۔ شاید ہی کوئی سیاستدان ہو جو اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ پروان نہ چڑھا ہو۔
میاں صاحب کے ناقابل ضمانت وارنٹ نکلے ہوئے ہیں۔ عدالت نے پوری کوشش کی کہ میاں صاحب عدالت آ کر اپنی ساری شکایات اس کے گوش گزار کریں لیکن میاں صاحب نے عدالت آنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ میاں صاحب بقول ان کے حامیوں کے سخت بیمار ہیں۔ دوسری طرف میاں صاحب نہ صرف ٹی وی پر بھاشن دے رہے ہیں بلکہ لندن کی سڑکوں پر واک کرتے نظر آتے ہیں، لندن کے مشہور کیفوں میں چائے پیتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اصل مسئلہ اربوں کی کرپشن کی رقم کو بچانے کا ہے اور یہ رقم اسی وقت بچ سکتی ہے جب ملک میں بڑے پیمانے پر ہلہ گلہ، خون خرابہ ہو۔ اہل لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سب اس کی تیاری ہے، ملک میں الیکشن کو ابھی تین سال باقی ہیں اور اپوزیشن کے لیے تین سال تین صدیاں بن گئے ہیں۔
حکومتیں بدلنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ الیکشن کرائے جائیں جس جماعت کو اکثریتی ووٹ ملیں وہ اقتدار میں آئے لیکن ہماری اپوزیشن نے حکومت بدلنے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے، وہ ہے "حکومت گرانے کا" ہم بھی لگ بھگ پچاس سال سے باالواسطہ طور پر سیاست سے جڑے ہوئے ہیں لیکن حکومت گرانے کے فارمولے سے قطعی ناواقف ہیں۔
ہو سکتا ہے اپوزیشن ہزاروں کی تعداد میں کارکن بھرتی کر کے ان سے ہلہ گلہ کروا کر امن و امان کا مسئلہ پیدا کرے اور ان کی آڑ میں کرپشن کی تحقیق کو سبوتاژ کرائے لیکن اس بار ایسا لگتا ہے کہ عوام آگے آئیں گے اور ہر سازش کو ناکام بنا دیں گے اگر ایسا ہوا تو پھرکیا ہوگا؟ یہ ہے اصل سوال۔