امریکا کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے لیکن اس ملک میں بیروزگاری الاؤنس کے لیے "مزید" بارہ لاکھ درخواستیں وصول ہوئی ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اس حوالے سے ایک حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے مطابق اب بیروزگاروں کو فی ہفتہ 400 ڈالرکی امداد دی جائے گی۔ بلاشبہ یہ بڑا نیک کام ہے، امریکا کے مذہبی حلقے اس افتاد کو گاڈ کی ناراضگی سے تعبیر کریں گے اور دعاؤں اور معافی تلافی کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا، یوں بیروزگاروں کی ایک بھاری فوج تیار ہو جائے گی جو ہتھیاروں کی بجائے بھوک سے لیس ہو گی۔
ابھی حاضر بیروزگاروں میں فی ہفتہ کی امداد بھی پوری طرح ادا نہیں کی جا سکے گی کہ مزید 12 لاکھ بیروزگارلائنوں میں کھڑے نظر آئیں گے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس بیروزگاری کی وجہ تلاش کرکے اسے ختم کرنے کا بندوبست کرنے کی بجائے امداد کو مسئلے کا حل سمجھ لیا گیا ہے۔ بیروزگاری ہر ملک کا مسئلہ ہے خود پاکستان میں لاکھوں بیروزگار موجود ہیں اور ادھر ادھر دیہاڑی لگا کر بیروزگاری کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ہماری حکومت کورونا الاؤنس ہی سے پریشان ہے، وہ بیروزگاری الاؤنس کہاں سے دے گی؟
غریبوں، بیروزگاروں کی مدد کرنا ایک اچھا کام ہے لیکن اس قسم کے کام بیروزگاری کے مسئلے کا منطقی حل نہیں۔ منطقی اور انسانی حل یہ ہے کہ پہلے بیروزگاری کی وجہ تلاش کی جائے اور یہی کام بڑا مشکل ہے۔ امریکا میں معاشی ماہرین کی بڑی تعداد رہتی ہے کیا وہ نہیں جانتی کہ بیروزگاری ایک مستقل اور تکلیف دہ مسئلہ ہے۔ اس حوالے سے ایک مثال، ایک مل میں پانچ ہزار مزدورکام کرتے ہیں مل کی ماہانہ آمدنی اگر 10 کروڑ روپے ہے تو اس میں سے مزدوروں کی اجرت 5 کروڑ سمجھیے دیگر اخراجات 2 کروڑ مان لیجیے جملہ 7کروڑ جانے کے بعد 3 کروڑکی بچت ہوئی۔ یعنی ماہانہ منافع 3 کروڑ سالانہ منافع 36 کروڑ۔
یہ خالص منافع ہے۔ ملک میں سیکڑوں ملیں ہیں اور اربوں روپے کما رہی ہیں ٹیکس وغیرہ میں بڑے بڑے گھپلے ہوتے ہیں اور مالک سب خرچ کے بعد ماہانہ کروڑوں روپے بچا لیتا ہے دو تین سال میں مالک ایک نئی مل کھڑی کر لیتا ہے یہ سلسلہ یوں ہی چلتا چلتا مالک کو ارب پتی بنا دیتا ہے اور مزدور جو اس دولت میں اضافہ کرتا ہے وہ ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے یوں ہزار پانچ سو مالکان کے ہاتھوں میں اربوں روپے جمع ہو جاتے ہیں۔ کیا ان اربوں روپوں کو جو مزدورکی محنت کی کمائی ہوتے ہیں مزدوروں میں تقسیم کیا جاتا ہے؟ یہی وہ سرمایہ دارانہ میکنزم ہے جو چند ہاتھوں میں دولت کے انبار جمع کر دیتا ہے اس کی قیمت مزدور بھوک بیماری تعلیم اور علاج سے محروم رہتا ہے یہ ہے وہ قیمت جو اس نظام میں غریب اور مزدور طبقہ ادا کرتا ہے۔
دنیا بھرکے ملکوں کی معیشت سرمایہ دارانہ ہے۔ یہ معیشت دراصل سود اور منافع پر کھڑی رہتی ہے اگر ان دو پلروں میں سے ایک بھی زمین پرآ جائے تو یہ معیشت کی عمارت دھڑام سے زمین پرآ جاتی ہے پاکستان ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے جہاں لاکھوں انسان دو وقت کی روٹی کے لیے ترستے ہیں، لاکھوں انسان بیروزگاری سے پریشان ہیں، ایسے ملک میں اگر عوامی دولت کی دھڑلے سے لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہے تو ایسے ملک کو دیوالیہ ہونے سے کون روک سکتا ہے۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے زرعی ملک اگر مہارت اور دیانت سے کام کریں تو ترقی کی جانب گامزن ہونے سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے یا ایلیٹ کی سازشوں سے اس بدقسمت ملک کے دو صوبوں میں ابھی تک جاگیردارانہ نظام قائم ہے جہاں وڈیرہ بادشاہ اورکسان ہاری رعایا ہوتی ہے۔
پنجاب اور سندھ میں بڑی جاگیرداریاں موجود ہیں کسان بدحال ہے اور جاگیردار بادشاہوں کی طرح عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ جاگیردار طبقے کے افراد ابھی تک بڑی حد تک حکومت اور سیاست میں بہت بااثر ہیں، ذرا ہماری سیاست پر نظر ڈالیں۔ جاگیردار اور صنعت کار حکومت میں اور سیاست میں فعال ہیں عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) تیزی سے حکومت کو گرانے کی کوشش کرتے رہے لیکن 70 سال سے ایلیٹ کے ڈسے ہوئے عوام کسی قیمت پر ان عوام دشمن جماعتوں کے فریب میں آنے کے لیے تیار نہیں۔ دو چار سو کرائے کے کارکنوں کے علاوہ عوام نام کی کوئی چیز اس نام نہاد اپوزیشن کے پاس نہیں۔
پی پی پی اور مسلم لیگ آج کل بے شمارکرپشن کیسوں میں الجھے ہوئے ہیں اور پیشیاں بھگت رہے ہیں یا ملک سے فرار ہیں۔ ہماری اپوزیشن کا گزر بسر اب اخباری بیانات پریس کانفرنسوں پر ہے یہ جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ اگر انتخابات ہوئے تو انھیں سخت شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے وہ انتخابات کرانے کی بات کرنے کی بجائے حکومت گرانے کے غیر جمہوری نعرے لگا رہے ہیں۔ آٹا اور گندم کے مصنوعی بحران پیدا کیے گئے، چینی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا، مہنگائی کو ایک سازش کے ذریعے چاند تک پہنچایا گیا لیکن عوام ٹس سے مس نہیں ہوئے کیونکہ عوام ان محترمین کی کرپشن کے ریکارڈوں سے واقف ہیں جو ملک کے کونے کونے میں بج رہے ہیں اور بے آواز ہیں۔ صورتحال پر حکومت نے بڑی حد تک قابو پا لیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام اپوزیشن سے سخت نالاں اور بیزار بیٹھے ہوئے ہیں۔ حکومت نے کورونا کی وجہ بیروزگار ہونے والوں کو بارہ بارہ ہزار روپے کی تین قسطیں دی ہیں جس سے حکومت کے پیر مضبوط ہو گئے ہیں۔ لاک ڈاؤن وغیرہ کی پابندیاں ختم کر کے عوام کو سابقہ شیڈول کے مطابق کام کرنے کی چھوٹ دے دی گئی ہے، کورونا کرائسس کے باوجود حکومت کے خلاف اپوزیشن کچھ نہیں کر پا رہی ہے جو ایکٹیویٹیز نظر آ رہی ہیں وہ سب دولت کے بے تحاشا استعمال کا نتیجہ ہے موجودہ صورتحال سے صرف ایک طبقہ پریشان ہے اور وہ ہے سابق حکمران طبقہ۔ حکومت گرانے کی تمام سازشیں ناکام ہو چکی ہیں اپوزیشن حکومت گرا سکتی ہے نہ انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آ سکتی ہے یہ ہے سچ۔