دہشت گردی کا واقعہ جہاں بھی ہو قابل مذمت ہے، دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے قوم کو پریشان کر دیا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات نے پاکستان کو بہت نقصان دیا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ ملکی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملک میں پائی جانیوالی دہشت گردی کا مقابلہ پاک فوج کے ذریعے ممکن ہوا ہے، ورنہ مسلکی فرقہ واریت، انتہا پسندی، عدم برداشت اور دہشت گردی نے ملک کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا تھا، آئے روز دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ بھی سکیورٹی فورسز کے ادارے بن رہے ہیں، وزیرستان اور بلوچستان میں کوئی دن ایسا نہیں، جب دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہ ہوا ہو۔ کل بھی میں نے لکھا تھا، گزشتہ روز کے اخبارات میں بلوچستان میں لانس نائیک کی شہادت اور تین جوانوں کے شدید زخمی ہونے کی خبر آئی۔ بلوچستان میں اندرونی خطرات کے ساتھ ساتھ بیرونی عوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بلوچستان میں دہشت گرد کاروائیوں اور مداخلت کے تانے بانے تحقیق کرنے پر بھارت، افغانستان سے ہوتے ہوئے امریکا اور اسرائیل تک جا ملیں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان کی افغانستان اور افغانیوں سے ہمدردی ہے مگر پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سابقہ تاریخ اور بلوچستان میں دہشت گردی کے موجودہ واقعات سے سابق و موجودہ افغان حکمران لا علم نہیں کہ سب کچھ پاکستان کے دشمنوں کی آشیرباد سے ہو رہا ہے۔ بھارت دریائے کابل پر ڈیم کیلئے افغانستان سے تعاون کر رہا ہے، اس کا مقصد بھارت کی افغان قوم سے ہمدردی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف بغض ہے۔ بھارت کی ریشہ دوانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ قومی حکمت عملی بنانے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاستدانوں کی ذاتی لڑائیاں اپنی جگہ مگر اس مسئلے پر قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔ بلوچ رہنما رؤف خان ساسولی نے ایف سی کے جوانوں کی شہادت پر تبصرہ کرتے ہوئے بجا اور درست کہا کہ بلوچستان کے سرداروں کے بجائے عام آدمیوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ مودی کے آنے کے بعد پاکستان کے خلاف بھارت کی مذموم کاروائیاں بڑھ چکی ہیں۔ افغانستان کے راستے بھارت ڈبل گیم کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ افغانستان سے صدیوں پرانا بدلہ لے رہا ہے۔ نہرو نے ایک بار کہا تھا کہ افغانستان کے لوگ کرائے کے قاتل ہیں، پیسے لے کر ہر حملہ آور کے ساتھ شامل ہو کر ہندوستان پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ پاکستان بنے گا تو ہندوستان کی جان چھوٹ جائے گی۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ بھارت افغانیوں کو پاکستان سے الجھا کر ایک طرف افغانستان سے پرانا بدلہ چکا رہا ہے اور دوسری طرف وہ پاکستان سے دشمنی پر کمر بستہ ہے۔ بھارت نے پاکستان سے ملحقہ علاقوں میں اپنے سفارت خانے قائم کر رکھے ہیں۔ وہ انہی سفارت خانوں کے ذریعے بلوچستان میں اسلحہ اور سرمایہ بھیجتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بھارت بلوچستان کے راستے پورے پاکستان میں اپنی مذموم کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور سرائیکی خطے کے ڈیرہ جات بھارت کی نظرِ بد سے محفوظ نہیں۔
میں نے چند دن پہلے بھی لکھا تھا کہ ڈی جی خان جوکہ معدنی دولت سے مالا مال ہے اور جہاں سے یورنیم بھی پیدا ہو رہی ہے، پر دشمن کی نظریں ہیں، پچھلے دنوں نئی بننے والی فورٹ منرو پُل کو نقصان پہنچایا گیا اور ڈی جی خان میں ریلوے پٹری کو بم سے اڑایا گیا، بھارت افغانستان کی معرفت را کے ذریعے علاقے میں دہشت گردی کرتا رہتا ہے۔ جس پر عسکری ادارے یقینا نظر رکھے ہوئے ہونگے، اس کے ساتھ وسیب کے عام آدمی کو بھی خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو دولخت کرانے کے باوجود بھارتی رہنماؤں کی نفرت والی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی۔ اس ساری کہانی کو سمجھنے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ روس افغانستان میں موجود رہا اسکے اپنے مفادات ہیں، اب روس کی جگہ بھارت نے لے لی ہے۔ امریکا خود کو افغانستان کا فاتح سمجھتا ہے، امریکا کے اتحادیوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں پاکستان کو صرف اور صرف اپنے مفاد کیلئے قومی و خارجی پالیسیاں ترتیب دینا ہونگی۔
بلوچستان کی لیڈر شپ کا تعلق بالا دست طبقے سے ہے۔ بلوچستان کو سرداروں کی نہیں غمخواروں کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے عام آدمی کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ عوامی قیادت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو بہکانے والے وطن دشمنوں کا اصل چہرہ دکھانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے اپنے وسائل بہت زیادہ ہیں، این ایف سی ایوارڈ کے نتیجے میں بلوچستان کو مرکز سے بھی فنڈز ملتے ہیں مگر یہ فنڈز عام آدمی کی بہتری یا بلوچستان کی ترقی کی بجائے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان کے عام آدمی کیلئے جاپان نے فنڈز دیئے، گوادر کے حوالے سے چین بھی دل کھول کر سرمایہ کاری کر رہا ہے مگر بھارت و افغانستان کی بلوچستان میں مداخلت کے باعث سننے میں آیا ہے کہ چین گوادر کی بجائے کراچی کے ساحل پر نئی بندرگاہ کی تلاش میں ہے۔ بلوچستان اور پاکستان کی بہتری اس میں ہے کہ بلوچستان میں سرداروں کی بجائے عام آدمی کو مضبوط کر کے بھارت و افغانستان کی سازشوں کو ناکام بنایا جائے۔
بلوچستان کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بلوچستان کے طلباء احتجاج کر رہے ہیں کہ انکی فری تعلیم کا کوٹہ بحال رکھا جائے۔ پچھلی حکومت نے کوٹہ مقرر کیا تھا، موجودہ وائس چانسلروں نے کوٹہ ختم کر دیا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے بلوچ طلباء کا مسئلہ حل کرنے کا حکم دیدیا ہے، میں اتنا کہوں گا کہ جس طرح سرائیکی وسیب کی یونیورسٹیوں میں بلوچ طلباء کو فری تعلیم کا کوٹہ دیا گیا ہے، اسی طرح بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں بھی وسیب کے طلباء کو فری تعلیم کا کوٹہ حاصل ہونا چاہئے تاکہ میرٹ اور انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ یہ مطالبہ ان طلباء کو خود کرنا چاہئے جو احتجاج کر رہے ہیں کہ سرائیکی وسیب میں ان کو آسودگی اورعافیت ملی ہے۔ جبکہ بلوچستان میں وسیب سے جانے والے مزدوروں کی حالت درست نہیں، یہاں تک بھی ہوا کہ وسیب کے مزدوروں کے قتل کے پے در پے واقعات ہوئے، آج تک نہ قاتل پکڑے گئے اور نہ ہی غریب مقتولین کے لواحقین کی کسی نے اشک شوئی کی۔