Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Ghair Mulki Safeeron Ki Bahawalpur Aamad

Ghair Mulki Safeeron Ki Bahawalpur Aamad

یادش بخیر! بہاولپور پریس کلب میں معروف دانشور اور ڈائریکٹر بہاولپور آرٹس کونسل رانا اعجاز محمود کی وفات پر تعزیتی ریفرنس ہوا تو اس موقع پر مرحوم کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ سابق ریاست بہاولپور کی پاکستان کیلئے خدمات کا ذکر ہوا، کمشنر بہاولپور آصف اقبال چوہدری نے اس موقع پر بہاولپور سے اپنی دلی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ریاست کے نواب کے طور پر نہیں بلکہ خادم کے طور پر بہاولپور میں موجود ہیں اور انشاء اللہ موجودہ حکومت بہاولپور کی محرومی کا داغ دھو دے گی۔ پرانی یادوں میں سے مجھے یاد آیا کہ میری روزنامہ رہبر بہاولپور میں ملازمت تھی اور بہاولپور کی اہمیت کے پیش نظر ذوالفقار علی بھٹو نہ صرف خود بہاولپور آئے بلکہ غیر ملکی سفیروں کو بھی اپنے ساتھ بہاولپور لائے اور بہاولپور کی تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی حیثیت کے بارے میں غیر ملکی مہمانوں کو بتایا۔

یہ حقیقت ہے کہ ریاست بہاولپور میں اعلیٰ ترین فلاحی ادارے موجود تھے، 1906ء میں بہاول وکٹوریہ ہسپتال قائم ہوا تو اس کا شمار ہندوستان کے بڑے ہسپتالوں میں ہونے لگا۔ بہاولپور اسٹیڈیم اور چڑیا گھر قائم ہوئے تو یہ اپنی مثال آپ تھے۔ جامعہ الازہر مصر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم ہوا تو یہ اپنی مثال آپ تھا۔ بہاولپور کا طبیہ کالج، ایس ای کالج و دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ بعد میں صادق پبلک سکول جو کہ ساڑھے 12ہزار ایکڑپر مشتمل ہے، ہندوستان کے بہترین اور اعلیٰ ترین سکولوں میں شمار ہوتا تھا، نواب آف بہاولپور نے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کئے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد نہ صرف یہ کہ نئے ادارے نہ بنائے گئے بلکہ پہلے سے موجود اداروں کا بھی برا حال کر دیا گیا۔ نواب آف بہاولپور نے لاہور کے تعلیمی اداروں جیسا کہ کنگ ایڈورڈ، پنجاب یونیورسٹی، ایچ ای سن کالج، اسلامیہ کالج لاہور و دیگر اداروں کو ہر سال لاکھوں کا فنڈ دیتے رہے۔

مصور پاکستان علامہ اقبال نے ریاست بہاولپور کی تعریف میں طویل قصیدہ لکھا، قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری بھی بہاولپور سے وظیفہ لیتے رہے۔ مگر سوال اتنا ہے کہ ان عظیم خدمات کا بہاولپور کو کیا صلہ ملا۔ بہاولپور میں اداروں کا ذکر چلا ہے تو ایک ادارہ سنٹرل لائبریری بھی ہے، جو کہ پورے ہندوستان میں اپنی مثال آپ تھی۔ سنٹرل لائبریری بہاول پور کا شمار پاکستان کی بہترین لائبریریوں میں ہوتا ہے اور یہ نواب سر محمد صادق مرحوم کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس سے ان کی ادب سے وابستگی اور دلچسپی کا عملی اظہار ہوتا ہے۔ امور سے سلطنت کے علاوہ نواب مرحوم نے بہاول پور کے عوام کی تعلیمی پسماندگی کو بھی سامنے رکھا اور انہیں ادب سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اور ان کے ذوق کی تسکین کے لئے ایک عظیم الشان لائبریری قائم کر دی تاکہ آنے والی نسلیں اس عظیم سرمایہ سے مستفید ہو سکیں۔ یہ لائبریری ایسے موقع پر قائم کی گئی جو آپ کی امور سلطنت سنبھالنے میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ 1924ء کا سال اس لئے منفرد حیثیت کا حامل ہے کہ امیر آف بہاول پور سر صادق محمد خاں کی رسم تاج پوشی اسی سال ادا کی گئی اور اسی موقع پر امیر نے اپنے وزراء اور عوام سے مشورہ کے بعد ایک عظیم لائبریری کے قیام کا اعلان کیا۔

نواب مرحوم نے عوام میں تعلیمی شعور بیدار کرنے کے لئے کتنی عملی دلچسپی لی۔ اس کا اظہار لائبریری کے قیام سے ہوتا ہے۔ اب لائبریری کی تعمیر کے لئے جگہ درکار تھی۔ امیر آف بہاول پور نے وسیع زمین لائبریری کی عمارت کے لئے مختص کر دی۔ امیر آف بہاول پور نے ذاتی دلچسپی سے اس کا نقشہ بنوایا جو کہ قدیم وکٹورین طرز کا تھا۔ اس نقشہ میں ملکی و غیر ملکی ماہر انجینئرز کی آراء لی گئی، بالآخر اسے حتمی شکل دے کر نواب آف بہاول پور سے اس کی منظوری لی گئی۔ 8مارچ 1924ء کو اس وقت کے وائسرائے ہند سر روفس آئزک ارل آف ریڈنگ نے اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس لائبریری کا نام امیر آف بہاول پور اور وائسرائے ہند کے ناموں کی مطابقت سے "صادق ریڈنگ لائبریری" رکھا گیا۔

سنٹرل لائبریری کی عمارت کی تعمیر کا کام 1924ء سے لے کر 1927ء تک جاری رہا۔ یہ وہ دور تھا جب بہاول پور ریاست بھی معاشی مسائل کا شکار ہو چکی تھی۔ برصغیر میں ایک عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ بہت سی بیرونی اور اندرونی پیچیدگیوں کی وجہ سے عمارت کی تعمیر کا کام کچھ عرصہ کے لئے ملتوی کر نا پڑا۔ یہ کام کافی عرصہ ملتوی رہنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس عمارت کو بلدیہ بہاول پور کی تحویل میں دے دیا جائے اور بلدیہ بہاول پور عمارت کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ٹھیکیداران کے واجبات بھی ادا کرے۔ بلدیہ بہاول پور نے لائبریری کی امارات کو1934ء میں مکمل کر لیا اور اسی میں اپنا دفتر قائم کر لیا، بعد ازاں ریاست کی طرف سے فنڈز کی فراہمی پر یہ بڑی لائبریری بن گئی اور اس کا شمار ہندوستان کی بڑی لائبریوں میں ہونے لگا۔ 1947ء میں قیام پاکستان سے چند ماہ قبل ریاست بہاول پور کے وزیر اعظم جناب مشتاق احمد گورمانی نے بہاول پور میں ایک اعلیٰ قسم کی لائبریری کی کمی شدت سے محسوس کی اور "صادق ریڈنگ لائبریری" کی تمام تاریخ کے سامنے تھی۔ لہٰذا باہمی مشورے اور کونسل کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا گیا کہ بلدیہ بہاول پور کی لائبریری بمعہ فرنیچر کتب و دیگر لوازات تحویل میں لے کر عمارت ہذا میں سرکاری سطح پر ایک لائبریری کا اجراء کیاجائے جس کا نام سنٹرل لائبریری رکھا جائے اس فیصلے کے تحت عمارت ہذا کی بالائی منزل پر سنٹرل لائبریری کا اجراء کیا گیا۔

اس کے اخراجات سرکاری خزانے سے باقاعدہ بجٹ کے تحت فراہم ہونے شروع ہوئے۔ 1947ء تک یہ لائبریری عمارت کی بالائی منزل میں کام کرتی رہی۔ 1952ء میں کتب کا ذخیرہ اس حد تک بڑھ گیا کہ بالائی منزل بھی ناکافی ہو گئی۔ اس ضمن میں حکام سے رجوع کیا گیا۔ سابق ریاست بہاول پور کے زیر کنٹرول یہ لائبریری قیام پاکستان کے بعد صوبائی حکومت کے زیر کنٹرول آ گئی۔ حکومت نے اسے ہر سال فنڈ مہیا کرنا شروع کئے جو شروع شروع میں بہت ناکافی تھے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فنڈز میں اضافہ بھی کیا۔ معیاری کتب مہیا کرنے میں لائبریری کی ہر ممکن مدد کی گئی ویسے تو ریاست کے زمانے ہی سے لائبریری کو بہت اپ ٹو ڈیٹ رکھا گیا مگر وقت اور ضرورت کے پیش نظر سے قدیم اور جدید علوم کی کتب سے مزین کیا گیا اور قرآن پاک کے ایسے ایسے نادر نسخے لائے گئے جو اپنی مثال آپ ہیں۔ ان میں خط کوفی اور خط بہار بہت شہرت یافتہ ہیں۔