Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Corona Aur Talib Ilmon Ka Mustaqbil

Corona Aur Talib Ilmon Ka Mustaqbil

بلاشبہ کورونا کائنات کا سب سے بڑا حادثہ ثابت ہوا۔ اب بھی کورونا مکمل طور پر ختم نہیں ہوااور جہاں تک اثرات کا تعلق ہے، یہ اثرات تو شاید برسوں تک محسوس کئے جاتے رہیں۔ کورونا نے زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا جس میں تعلیم کا شعبہ بھی شامل ہے۔ پنجاب کی نسبت سندھ حکومت نے نرم پالیسی اختیار کی اور طلباء کو اگلی کلاسوں میں پروموٹ کر دیا، جبکہ پنجاب میں اعلان تو ہوا ہے مگر ابھی تک گومگو کی صورتحال ہے جس سے طلباء پریشان ہیں۔

واضح پالیسی آنی چاہئے تاکہ طلباء کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ کورونا وبا کے پیش نظر چھ ماہ سے تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے طلباء و طالبات کا گھر بیٹھنے کے سبب جہاں قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے، اس کے ساتھ نوجوان بے کار بیٹھنے سے بے راہ روی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ تخریبی سرگرمیوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ گورنمنٹ آف پاکستان نے تقریباً تمام کلاسز میں طلباء کو بغیر امتحان کے پاس کرنے کا نوٹیفکیشن تو کر دیا ہے مگر تاحال کسی بھی قسم کی واضح تعلیمی پالیسی ابھی تک تعلیمی اداروں اور نہ ہی تعلیمی بورڈ کو دی گئی ہے کہ انہوں نے طلباء کا پاس تناسب کا رزلٹ کس طرح تیار کرنا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ کسی بھی قسم کی صورتحال واضح نہ ہونے کے باعث والدین کے ہمراہ طلباء بھی سکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں کے مختلف شعبہ جات میں داخلے لینے کے معاملات میں تذبذب کا شکار ہیں۔ بے شمار داخلہ لینے سے محروم ہو چکے ہیں انہیں اپنا میرٹ ہی کلیئر نہیں ہو رہا کہ وہ کونسے شعبے میں داخلہ حاصل کر پائیں گے۔

پنجاب سطح پر اے سی کمروں میں بیٹھے افسران میٹنگز پہ میٹنگز کرنے میں مصروف ہیں جبکہ کروڑوں طلباء کا مستقل داؤ پر لگنے کے علاوہ انکا تعلیمی استحصال ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل تباہ ہو گیا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، حکومت کو مستقبل کے معماروں کی فکر کرنی چاہئے اور انکے مستقبل سے نہیں کھیلنا چاہئے۔ دیکھنے میں یہ بات آئی ہے کہ حکومت غیر ضروری کاموں پر زیادہ توجہ دیتی ہے اور جو ضروری کام ہوتے ہیں ان کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

تعلیم کا شعبہ اہمیت کا حامل ہے، میں نے گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا کہ مکمل تعلیمی پالیسی ہونی چاہئے اور حکومت کو تعلیم کا بجٹ دوگنا کرنا چاہئے تاکہ قوم تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ سکے۔

میں جس نوجوان سے بھی ملا ہوں وہ مجھے مایوس نظر آیا ہے۔ نوجوانوں میں مایوسی کی بجائے امید اور امنگ ہونی چاہئے، غریب طالب علموں کا تو بہت ہی برا حال ہے، امیر طلبہ تو پھر بھی کام چلا لیتے ہیں، امراء کے بچے جن تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں ان کا مقصد دولت کمانا ہے اور امیر طبقہ دولت کے بل بوتے پر سب کچھ حاصل کر لیتا ہے مگر میرے وطن کے غریب نوجوان کے بارے میں تعلیم کے میدان میں نظر ڈالتا ہوں تو مجھے واضح نظر آتا ہے کہ غریب نوجوان مایوسی میں مبتلا ہیں، اسی حوالے سے میڈیکل کالجز سمیت مختلف کلاسز کے طلباء کا کہنا ہے کہ میڈیکل کالجز کی کلاسز اٹینڈ نہیں کر سکتے۔ آن لائن کلاسز کا ڈرامہ تو رچایا جا رہا ہے لیکن ہمارے ملک میں انٹرنیٹ سسٹم اتنا پاور فل نہیں کبھی آواز اور کسی وقت تصویر گم ہو جاتی ہے۔ بورڈز کے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں، بورڈ کا عملہ کا کہنا ہے کہ انکے پاس ابھی تک حکومتی واضح پالیسی نہیں پہنچی۔ والدین اور طلباء نے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر حکومتی پالیسی واضح کرتے ہوئے اسکا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کریں۔

اگر ہم پاکستان کی تعلیمی پالیسی کی بات کریں تو یہاں اب تک کسی بھی تعلیمی پالیسی کو مکمل طور پر نافذ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ بد قسمتی سے اپنی مادری زبان کو وہ فوقیت نہیں دی گئی جو حقیقی طور پر دینی چاہئے تھی یعنی طلباء کو انکی مادری زبان میں پڑھنا، لکھنا، بولنا اور سیکھانا چاہئے۔

پختونخواہ کے بیشتر طلباء و طالبات پشتو، ہندکو، سرائیکی یا دوسری زبانیں بولتے ہیں، دوسری جانب صوبہ پنجاب میں چھوٹی عمر کے بچوں کو اپنی مادری زبان صحیح طرح پڑھنا ہی نہیں آتی۔ اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ سکولوں میں ہم ان کو اردو اور انگریزی ایک دم سے سیکھانے کی کوشش کرانے لگتے ہیں جس سے بچہ ذہنی طور پر کمزور ہو جاتا ہے۔ اگر آج کے ترقی یافتہ ملک چین کی تعلیمی ترقی کو دیکھا جائے تو چین میں بچوں کو ماں بولی میں تعلیم دی جاتی ہے، چین بہت بڑا ملک ہے اور بہت سی زبانیں وہاں بولی جاتی ہیں، اسی طرح جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی ترقی کا راز یہی ہے۔

ہمسایہ ملک انڈیا میں نہ صرف ماں بولیوں میں تعلیم دی جاتی ہے بلکہ ہندوستان کی 16 بڑی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ یہی عمل پاکستان میں دہرائے جانے کی ضرورت ہے۔

پچھلے دنوں لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات ہوئی تو میں نے وسیب میں سرائیکی تعلیم کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ گفتگو کی اور کہا کہ سرائیکی وسیب کے کالجوں میں سرائیکی مضمون کافی عرصے سے پڑھایا جا رہا ہے اور کامیابی کے ساتھ کلاسیں جاری ہیں۔ کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چھوٹے سے قصبے اوچ شریف کے گورنمنٹ کالج میں ساڑھے چار سو سے زائد طلبہ سرائیکی پڑھ رہے ہیں۔

میں جب واپس آیا تو اخبارات میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کی طرف سے لیکچرر کی آسامیوں کا اشتہار آیا ہوا تھا، جس کے مطابق عربی 21، انگلش 330، فارسی 15، پنجابی 30، سرائیکی 12 اور اردو کی 190 آسامیاں صوبے میں مشتہر کی گئی ہیں۔