دلیپ کمار کی وفات ایک شخص نہیں ایک عہد کی وفات ہے، اُن کا فنی سفر پون صدی پر محیط ہے، وہ ہندوستان اور پاکستان کے ہر دلعزیز فنکار تھے ہی مگر اُن کی شہرت عالمگیر تھی، اُن کی وفات سے فن کی دنیا میں ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہوا ہے جو صدیوں تک پُر نہ ہو سکے گا۔ دلیپ کمار کی وفات پر مودی اور عارف علوی سمیت سربراہان مملکت نے تعزیت کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دلیپ کمار کے انتقال کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہوا۔ شوکت خانم میموریل اسپتال کی فنڈریزنگ کے لیے ان کی خدمات کبھی نہیں بھلا سکتا۔ دلیپ کمار نے لندن اور پاکستان میں فنڈ جمع کرنے میں مدد کی۔ عمران خان کے علاوہ وزیر اعلیٰ عثمان خان بزدار، بلاول بھٹو زرداری، شہبازشریف اور وسیب کے رہنمائوں سمیت سب نے دلیپ کمار کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ دلیپ کمار کا اصل نام محمد یوسف خان تھا، دلیپ کمار ان کا فلمی نام تھا۔ مشہور ہندی مصنف بھگوتی چرن ورمانے انہیں "دلیپ کمار" کا نام دیا تھا جو انہوں نے ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھارتی فلم انڈسٹری میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اسکرین کے نام کے طور پر استعمال کیا۔ اوروہاں کے حالات کے مطابق یہ فیصلہ اُن کے فائدے کا باعث بھی بنا کہ ہندو انتہا پسند مسلم نام کو اتنی پذیرائی دینے پر شاید تیار نہ ہوتے، یہ ٹھیک ہے کہ دلیپ کمار نے اپنا مسلم ہونا چھپایا نہیں بلکہ اپنے عقیدے اور اپنے مذہب پر فخر کرتے رہے۔ عظیم گلوکار محمد رفیع بھی بہت بڑا نام تھا ان سے بھی تعصب کیا جاتاتھا وہ بھی مذہبی لوگوں کے تنقید کا شکار رہتے تھے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان میں اپنی عظمت کا لوہا منوایا ہے۔ دلیپ کمار کا تعلق پشاور سے تھا اور افغان مہاجرین کی آمد سے پہلے یہ شہر ہندکو بولنے والوں کا تھا ہندکو دلیپ کمار کی ماں بولی تھی وہ اپنی ماں بولی سے بہت محبت کرتے تھے۔ تاہم دلیپ کمار ہندکو کے علاوہ انگریزی، ہندی، پشتو، اُردو اور فارسی بولنے پر بھی عبور رکھتے تھے۔
1961ء میں ریلیز ہونے والی فلم "گنگا جمنا" وہ واحد فلم ہے جو دلیپ کمار کی ہدایت کاری میں بنی۔ اس فلم کی کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو معصوم ہے لیکن اسے ڈکیت بننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گنگا جمنا کی کامیابی نے ریکارڈ قائم کئے، ایسا کیوں ہوا؟ یہ بات سوچنے اور سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے، گنگا جمنا صرف دو دریائوں کا نام نہیں دو تہذیبوں کانام بھی ہے، محمد رفیع کی آواز میں ایک گانا آتا تھا "توگنگا کی موج ہے میں جمنا کا دھارا، رہے گا ملن ہمارا تمہارا"۔ کوئی بھی ڈاکومنٹ جو تہذیب اور ثقافت کے حوالے سے ہو وہ یادگار بھی ہوتا ہے اور کامیاب بھی۔ پاکستان میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی تہذیب وثقافت اور اُن کے اقدار کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا گیا، یہاں فلمیں بنیں تو وہ بھی مولا جٹ ٹائپ کی، یہ بھی دیکھئے کہ جب آپ گنگا جمنا میں پیدا ہونے والی ایک مصنوعی زبان کو پاکستان کی قومی زبان بنائیں گے اور خطے کی قدیم اور اصل تہذیب کا گلا گھونٹے گے تو نتائج بھی مصنوعی سامنے آئیں گے۔ دلیپ کمار کی ایک طاقت یہ بھی تھی کہ وہ ثقافت کے دلدادہ تھے۔
دلیپ کمار 1922ء میں پشاور کے محلہ خداداد میں پیدا ہوئے، اُن کے والد پھولوں کا کاروبار کرتے تھے، اسی بناء پر وہ خوش رنگ بھی تھے اور مزاج بھی خوشبو دار تھا۔ 1935ء میں اپنے والد کے ساتھ بمبئی چلے گئے وہ پیدائشی طور پر فنکار تھے، ان کے اندر کے فنکار نے اُن کو چین نہ لینے دیا اور وہ فلمی انڈسٹری کی طرف چلے گئے والد صاحب فلم انڈسٹری میں جانے کے حق میں نہ تھے مگر دلیپ کمار کا فیصلہ سود مند ثابت ہوا۔ ان کی پہلی فلم جوار بھاٹا تھی۔ 1947ء میں دلیپ کمار نے فلم جگنو میں نورجہاں کے ساتھ کام کیا اور یہ فلم اتنی کامیاب ہوئی کہ ہندوستان میں اس فلم نے شہرت کے ریکار ڈ قائم کئے۔ حالانکہ یہ پر آشوب سال تھا اس سال ہندوستان پاکستان کی تقسیم ہونے جا رہی تھی اور انگریز سامراج جانے والا تھا اس کے باوجود فلم بینوں کی طرف سے اس فلم کی پذیرائی حیران کن تھی۔ دلیپ کمار، ملکہ ترنم نور جہاں اور فلمسٹار محمد علی سے بہت عقیدت رکھتے تھے اُن کو اپنی جنم بھومی پشاور اور پاکستان سے محبت تھی۔ دلیپ کمار کی فلم مغل اعظم اور نیادور بلیک اینڈ وائٹ تھیں 2004ء میں مغل اعظم اور 2008ء میں نیا دور کی رنگین پرنٹوں کے ساتھ نمائش کی گئی۔ دلیپ کمار کا فلمی دنیا میں اتنا بڑا نام تھا کہ 1955ء تا 1957ء وہ تین سال مسلسل بیسٹ ایکٹر کا ایوارڈ حاصل کرتے رہے۔ وہ فلمی دنیا کی ایسی شخصیت تھے جو پوری دنیامیں جان پہچان رکھتے تھے۔ دلیپ کمار کو8بار فلم فیئر ایوارڈ سمیت انڈین فلم کا سب سے بڑا اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، پدما بھوشن ایوارڈ اور کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ دلیپ کمار کو 1998ء میں پاکستان کے سب سے بڑے سویلین اعزاز نشان پاکستان سے بھی نواز ا گیا۔ اپنے کیریئر کا سب سے پہلا ایوارڈ 1950ء کی دہائی میں اور سب سے آخری ایوارڈ 1982ء میں حاصل کیا جبکہ 1970ء دلیپ کمار کے کیرئیر کا وہ واحد سال تھا جس میں انہیں کوئی ایوارڈ نہیں ملا تھا۔ بہترین اداکار کا ایوارڈ 1952ء میں فلم داغ کے لیے اور 1960ء میں فلم کوہ نور، 1964ء میں فلم لیڈر، 1967ء میں فلم رام اور شیام اور 1982ء میں شکتی میں نواز گیا تھا۔
دلیپ کمار بہت خوش نصیب تھے مگر اس لحاظ سے وہ بے نصیب بھی ٹھہرے کہ دو بیویوں سے ان کی اولاد نہ ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ بیوی سائرہ کو امید ہوئی ایک ایک لمحہ ایک ایک دن اور ایک ایک ماہ گناجانے لگا مگر آٹھویں مہینے زنانہ بیماری کے باعث بچہ فوت ہو گیا۔ اور پھر دلیپ کمار نے اس کو ہی اپنا نصیب کہہ کر خاموشی اختیار کرلی۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے 2014ء میں دلیپ کمار کے پشاور والے گھر کو قومی ورثہ قرار دے کر میوزیم بنا دیا ہے۔ اہل پشاور اپنے سپوت سے بہت محبت کرتے تھے، دلیپ کمار کی وفات کا صدمہ پشاور میں بھی بمبئی کی طرح محفوظ کیا گیا اور پشاور میں بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔