6 ستمبر یوم دفاع، 7 ستمبر یوم فضائیہ اور 8 ستمبر یوم بحریہ جوش و خروش سے منایا گیا۔ جیسا کہ عسکری تاریخ کے حوالے سے میں اپنے پہلے دو کالموں میں بیان کر چکا ہوں کہ بھارت 1965ء سے پہلے رن آف کچھ کے دلدلی علاقے کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا تھا لیکن پاکستان رن آف کچھ کے معرکے کی وجہ سے پاکستان بحریہ ابھی حالت تیاری میں تھی کہ ستمبر 1965ء کا مہینہ آن پہنچا۔ 6 ستمبر کو پاک بحریہ کے جہازوں کو صبح آٹھ بجے اپنی معمول کی مشقوں پر روانہ ہونا تھا کہ صبح یہ خبر ملی کہ بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ مستعدی کے ساتھ یہ جہاز سمندر میں روانہ ہوئے لیکن حالت مشق کی بجائے حالت جنگ میں۔ پاکستان کی آبدوز غازی بھی دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے کراچی سے روانہ ہو گئی۔ اسی طرح مشرقی محاذ پر موجود جہازوں نے کاروائی کر کے مشرقی پاکستان کے آبی راستوں میں بھارتی تجارتی جہاز گرفتار کر لئے، مشرقی اور مغربی محاذ پر حالت تیاری کے بہترین فوائد ہوئے اور پاک فوج کے بحری کارنامے تاریخ کا حصہ بنے۔
اگر ہم بحریہ کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 1954ء میں پاک بحریہ کے بیڑے میں چار تباہ کن جہاز، چار فریگیٹ، پانچ مائن سوئیپر اور ایک ٹرانٹر شامل تھے۔ پاکستان کی زندگی کے پہلے عشرے میں اس مختصر سی نیوی نے قوم کو جو شاندار خدمات سر انجام دی ہیں، وہ سنہری حروف میں لکھنے کے لائق ہیں۔ 1955ء میں مزید مائن سوئیپر خریدے گئے۔ جدید جہازوں کو چلانے کیلئے عملے کی تربیت کا بندوبست بیرون ملک سے کیا گیا۔ 1957ء میں دو ساحلی مائن سوئیپروں کے علاوہ کروز " بابر اور تباہ کن بدر، عالمگیر اور جہانگیر کا اضافہ کیا گیا۔ 1960ء میں ایک فلیٹ ٹینکر اور ایک آبدوز ملی۔ 1970ء میں تین اور آبدوزوں کو بحری بیڑے میں شامل کیا گیا۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں صدر مملکت ایوب خان نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ " پاکستان نیوی کا اس جنگ میں کوئی کردار نہ ہوگا، یہ جنگ زمین پر پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں لڑی جائے گی اور اس جنگ میں پاکستان آرمی اور ائیر فورس حصہ لیں گی۔"۔ اس کے باوجود جنگ ستمبر میں پاک بحریہ نے بھارت کے بحری اڈے " دوار کار " کو تباہ کر دیا اور آبدوز" غازی " نے کئی بحری جہازوں کو غرق کیا۔
قیام پاکستان کے ایک سال بعد چار مائن سوئیپر ( سرنگیں صاف کرنے والے ) بحری بیڑے میں شامل ہوئے، ان کے پاکستانی نام رکھے گئے۔ مالوہ کا نام پشاور، گری نوچ کا نام بلوچستان، کاٹھیاواڑ کا چٹاگانگ اور رام پور کا نام لاہور رکھا گیا، ایک ٹرانٹر " بڑدوہ " بھی پاکستان کے حصے میں آیا جس کا نام بہاولپور رکھا گیا۔ یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ پاک فوج کیلئے سابق ریاست بہاولپور کی بہت خدمات ہیں۔ بہاولپور نے اپنی شاندار رجمنٹ پاک فوج کے حوالے کی، جو کہ بعد میں بلوچ رجمنٹ میں ضم کی گئی حالانکہ اسے اپنی اصل شناخت کے نام سے برقرار رہنا چاہئے تھا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بھاولپور کو بری، بحری اور فضائی افواج میں نمائندگی دی جائے اور اس کے نام سے ایک رجمنٹ بھی قائم ہونی چاہئے۔ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے پاس بہت بڑی بحری فوج نہ تھی، کہا جاتا ہے کہ 14 اگست 1947ء کو جب پاکستان کے حصے میں آنے والے جہازوں پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا تو وہ تعداد میں صرف چار تھے وہ بھی محض فریگیٹ جو رائل انڈین نیوی کے بیڑے سے جدا ہو کر کراچی پہنچے تھے۔ ایک کا نام نڈار تھا، اس کا پاکستانی نام شمشیر رکھا گیا۔ دھانوش (ذوالفقار)، گودادری ( سندھ اور نربدا جس کا نیا نام جہلم رکھا گیا، یہ چاروں پاکستان کے پہلے نیوی کمانڈر انچیف ریئر ایڈمرل جے ڈبلیو جو فورڈ کی کمان میں تھے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ 1971ء کی جنگ کے بعد اور سقوط مشرقی پاکستان کے المناک سانحے کے بعد ارباب اقتدار کو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ ماضی میں نیوی سے متعلق حکومتوں کی پالیسی مناسب اور معقول نہیں تھی۔ چنانچہ پاکستان نیوی کے نئے خدوخال ابھرنا شروع ہوئے اور بہت کم وقت میں پاکستان نیوی نے اپنے دور ثانی میں انتہائی تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کیں۔ اب پاکستان نیوی چھوٹی ہونے کے باوجود بھی طاقتور ہے۔ اس کے بیڑے میں وقت کے تقاضوں کے مطابق بحری جہاز، میزائل بردار کشتیاں، آبدوزیں اور جدید ترین ہتھیار اور اس کے فضائی بازو میں شامل جہاز شکن و آبدوز شکن طیارے اور ہیلی کاپٹر شامل ہیں۔ میزائل بوٹ " جلالت " پاکستان کے نیول انجینئروں اور ماہرین کی تیار کر دہ پہلی میزائل بوٹ ہے جس کا افتتاح گولڈ جوبلی پاکستان کے موقع پر اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کیا۔" جلالت " پاکستان کی سمندری حدود کی نگرائی اور نگہبانی کے فرائض سر انجام دیتی ہے اور حالت جنگ میں دشمن کے جنگی جہازوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ دشمن نیوی کی بچھائی گئی جدید ترین بارودی سرنگ کو تباہ کرنے والا مائن کاؤنٹر میٹر روسل پاکستان میں تیار کیا گیا ہے۔ فرانس کے اشتراک سے پاکستان نیوی کے ماہرین نے جدید ترین آبدوز تیار کی ہے۔ اسٹیٹ آف دی آرٹ جنگی جہازوں اور جدید ترین آبدوزیں بھی تیار کی گئی ہیں، جو کہ پاکستان کیلئے سرمایہ افتخار ہیں۔